Surkhiyan
  • Home
  • What’s In
  • National
  • Videos
  • Life and Style
  • Economy
  • Opinion
  • Technology
    • Mobile Reviews
  • Sports
  • Travel
  • اردو کالم
  • Satire
No Result
View All Result
No Result
View All Result
Surkhiyan
No Result
View All Result
Home اردو کالم

زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس اور اشرفیہ

اس تمام مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس کو  وفاقی حکومت کے سپرد کردیا جائے اور اشیا پر سیلز ٹیکس صوبوں کو واپس دے دیا جاے جو ان سے آزادی کے بعد لیا گیا-  پاکستان کے بہت سے معاشی مسائل کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کے وسائل اور اختیارات مراعات یافتہ طبقات کے پاس ہیں-

Huzaima Bukhari & Dr. Ikramul Haq by Huzaima Bukhari & Dr. Ikramul Haq
June 21, 2020
in اردو کالم
0 0
0

Huzaima Bukhari & Dr. Ikramul Haq

  • 136
  • 8
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
    144
    Shares

جدید  قومی ریاست  سے پہلے، آمرانہ، سلطانی اور غیر جمہوری ریاستوں میں  بادشاہوں اور جاگیرداروں کے اختیار کی بنیاد یہ ہوتی تھی کہ ”ہم زمین کے مالک ہیں، اس لیے عوام پر راج  ہمارا  حق ہے”– اس کی جگہ ایک  جمہوری ریاست کا تصور یہ ہے کہ وہ عوام کے منتخب قانون ساز اداروں کے ذریعے اختیارات اور حقوق کے قوانین کے علاوہ ریاستی ضروریات اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ٹیکس (محصولات) لگاتی ہے۔ محصولات لگانے کا اختیارعوامی نمائندگی کے حق کے ساتھ مشروط ہے- اس کا اظہاراسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کےآرٹیکل 77  میں درج ہے:

” بجز مجلس شوری (پارلیمنٹ) کے کسی ایکٹ کے یا اس کے اختیار کے تحت وفاق کی اغراض کے لئے کوئی محصول نہیں لگایا جائے گا”

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین  [آئین پاکستان] کے تحت زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا اختیار صوبائی پارلیمان (اسمبلیوں) کو حاصل ہے- وفاقی پارلیمان زرعی آمدنی کے علاوہ ہر قسم کی آمدنی پر انکم ٹیکس لگا سکتی ہے. آئین پاکستان کے آرٹیکل 260 کے مطابق “زرعی آمدنی” کی  تعریف وہ ہی ہو گی جو انکم ٹیکس کے وفاقی قانون میں درج ہے- آئین پاکستان کے اس غیر مبہم حکم کے باوجود کوئی بھی صوبائی حکومت دولت مند اور غیر حاضر جاگیرداروں کی زرعی آمدنی پرمناسب شرح پر انکم ٹیکس وصول کرنے کے لیے تیار نہیں جیسا کہ غیر زرعی آمدنی پر وفاقی انکم ٹیکس قانون کے تحت لاگو ہے. زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس فی ایکڑ کے حساب سے نہیں بلکہ حقیقی آمدنی پر ہونا چاہیے جو کہ آئین پاکستان کا تقاضا ہے- اس کو کوئی بھی صوبہ نظرانداز نہیں کر سکتا، مگر دس سال سے غیر آئینی عمل جاری ہے اورعدالت عظمیٰ سمیت  تمام ادارے خاموشی اختیار کیے ہوے ہیں. زرعی آمدنی کے بارے میں وفاقی حکومت کا رویہ اسلام آباد کی وفاقی حدود کی حد تک کچھ مختلف نہیں—اگرچہ یہاں امیر لوگوں کے زرعی فارمز ہیں اور دیہی علاقوں میں غیر حاضر جاگیرداربھی کافی دولت مند ہیں—کیونکہ  قومی سیاست، وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں جاگیرداروں کا اثر و رسوخ ہے- آئین پاکستان میں قومی اسمبلی کو زرعی آمدن  پر انکم ٹیکس کرنے کا اختیار وفاقی حدود میں بھی حاصل نہیں- اس کے لئے کبھی آئینی ترمیم کا ذکر بھی نہیں ہوتا- کیونکہ اس میں وہ طاقتورافراد  بھی شامل ہیں جن کو ریاست کی  زرعی زمینیں انعام و اکرام کے طور پر مفت دی جاتی ہے اور وہ اس کو کرایہ پر دے کر خود خوشحالی کی زندگی بسر کرتے ہیں- یہ ہر منتحب حکومت پر اثر انداز ہوتے ہیں اور غریب کسانوں کی محنت پر شاہانہ طرز زندگی گزارتیں ہیں-  ظلم کی انتہا یہ ہے کہ غریب کسانوں کا استحصال ریاست بھی کرتی ہے- ان سے عام استعمال کی اشیا کے علاوہ زرعی آلات، بجلی، ڈیزل، پٹرول، کھاد، زرعی ادویات اور دیگر ان پٹ پر بھاری سیلز ٹیکس وصول کیا جاتا ہے-  اس کے علاوہ بیشمار محصولات، پھر پولیس، پٹوار اور جاگیرداروں کی زیادتیاں- حالیہ انکوائری رپورٹ میں تو حکومت  نے بھی تسلیم کیا کہ شوگر مالکان کسسانوں کو گنے کی پیداوار کا جائز معاوضہ  بھی نہیں دیتے۔ آئین کے مطابق زرعی آمدن پر انکم ٹیکس کے قوانین لاگو  کرنے اورمحصولات میں اضافہ کرنے کی بجاے چاروں صوبائی حکومتوں نے پچھلے مالی سال میں مجموعی طور پر 2995.9  روپے کے محصولات جمع کیے، جس میں ٹیکس محصولات  401.4 ارب روپے  تھے- ٹیکس حصولات میں زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس کی وصولی کی شرح محض 0.34%  تھی- رواں مالی سال کے نظر ثانی شدہ  تخمینہ جات حیران کن طور پر کم ہیں اور اگلے مالی سال کے اہداف کورونا کی وبا کی وجہ سے اور بھی کم- کورونا کی وبا سے پہلے تمام صوبائی حکومتوں نے 1.4  بلین روپے بطور زرعی ٹیکس وصول کیے، حالانکہ اس کی ممکنہ استعداد ایک سے زیادہ تحقیقی مطالعات کے مطابق قومی سطح پر 500 بلین روپے تک ہے اگر آئین پاکستان کے مطابق زرعی انکم ٹیکس  نافذ کیا جائے- اگر صوبے یہ ٹیکس مناسب طورپر جمع کریں تو وفاق کا مالیاتی خسارہ کافی حد تک کم ہو سکتا ہے-  وفاقی حکومت نے اپنے تحت آنے والے علاقوں سے کوئی زرعی ٹیکس وصول ہی نہیں کیا—وفاقی بجٹ میں اس کا کبھی کوئی ذکر نہیں ملتا کیونکہ آئین پاکستان کے تحت قومی اسمبلی کو یہ ٹیکس لگانے کا اختیار ہی نہیں اور اس کے لئے آئینی ترمیم کرنا ہو گی. وزیر اعظم محترم کو وفاقی وسائل میں اضافے کے لئے کبھی اس ترمیم کا ذکر کرتے ہوے نہیں سنا گیا- اس کے علاوہ وہ اسلام آباد اور گرد و نواح کے عالیشان محل نما مکانات اور فارم ہاؤسز پر پراپرٹی ٹیکس فی مربع میٹر کم از کم 200 روپے سالانہ لگانے کا سوچتے بھی نہیں تاکہ اسلام آباد اور اس کے پسماندہ دیہی علاقوں میں سہولتوں کو بہتر کیا جا سکے-  مہنگے قرضوں کو ادا کرنے کے لئے رقم  امیرلوگوں کی جیب سے  نکلوانے کا مشورہ  بھی فنانس بل 2020 میں نظر انداز کیا-اگرچہ پارلیمان نے2013 میں انکم سپورٹ لیوی کی شکل میں غریب افراد کے لئے ٹیکس نافذ کیا مگرپھر اگلے سال ہی اس کو  ختم کر دیا-  مذکورہ بالا حقائق بتا رہے ہیں کہ اصل مسلہ اٹھارہویں آئینی ترمیم  یا این ایف سی ایوارڈ  کا نہیں ہے، بلکہ نظام محصولات میں اصلاحات نہ کرنا، ناکارہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو، امیراور بالادست طبقات کو ٹیکس کی مراعات اور چھوٹ، ریاستی ٹیکس چوروں اور قومی دولت لوٹنے والوں کو معافی دینا ہے- کیا اس کے لئے صوبوں نے وفاق سے مطالبہ کیا تھا یا قانون سازی میں حصہ لیا تھا؟ ٹیکس وفاق جمع نہ کرے اور الزام صوبوں پر! بہت خوب!! آج کل یہ بریفنگ وزیر اعظم محترم کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک  والے ماہر دے رہے ہیں- آئی ایم ایف کا قرضہ تواب اربوں ڈالرز میں ہے، مگر حال ہی میں  ورلڈ بینک  سے محض نظام محصولات میں اصلاحات کے لئے 500 ملین ڈالرز کا ایک اور قرضہ لیا ہے- کیا مقامی ماہرین اس قابل نہیں!! فرصت ملے تو وزیر اعظم محترم  یہ مضامین پڑھ لیں اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے حالیہ پالیسی پپیرز کو دیکھ لیں یا اس پر بریفنگ لے لیں:

https://surkhiyan.pk/author/huzaima-bukhari-dr-ikramul-haq/

https://www.pide.org.pk/Research/Tax-Policy-2020.pdf

https://www.pide.org.pk/pdf/Policy-Viewpoint-17.pdf

پانچ جولائی 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کی وجوہ میں سے ایک یہ بھی تھی کہ اُنھوں نے فنانس ایکٹ آف 1977ء کے تحت زرعی آمدنی پر وفاقی انکم ٹیکس لگانے کا فیصلہ وفاقی پارلیمنٹ سے منظوکروایا اور اس پر صدر نے دستخط  بھی کردیے تھے- اس پیش رفت نے جاگیرداروں، زمینوں کے مالک جنرلوں، ججوں اورامیر ارکان ِ پارلیمنٹ پر مشتمل طاقتور طبقے کو  ناراض کردیا تھا کیونکہ ان کے پاس اپنی اور ریاست کی بہت سی زمینیں تھیں۔ اس قانون کو ضیا الحق نے معطل کردیا۔ بعد میں ضیا نے بھٹو کا عدالتی قتل  کروا کر جاگیرداروں اور دیگر مراعات یافتہ طبقات کو خوش کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ جاگیرداروں اور مذہبی رہنمائوں نے ضیا الحق کی حمایت کی تھی۔ اس ضمن میں مذہبی طبقہ کی کارگزاری خاص طو ر پر یادرکھی جائے گی جس نے ضیا کی آمریت کو مذہبی رنگ دے کر اس کی حمایت کو عوام پر مسلط کرنے میں اھم کردار ادا کیا اور جس کا خمیازہ قوم آج تک برداشت کر رہی ہے.

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد آنے والے بہت سی حکومتوں، جن میں سویلین اور فوجی  دونوں شامل ہیں، نے چھوٹے کاشت کاروں پر آبادیاتی دور سے لگے ہوئے  ظالمانہ  محصولات کوختم کرنے کی کوشش نہیں بلکہ ان میں مزید اضافہ کیا، لیکن بڑے جاگیرداروں کی زرعی آمدنی  پر آئین کے مطابق انکم ٹیکس لگانے کی کسی کو توفیق نہ ہوئی۔ اور تو اور، محترمہ شہید بنظیر بھٹو نے بھی اپنی دونوں مدت کی حکومت کے دوران اپنے والد کے زرعی آمدنی پر وفاقی انکم ٹیکس  کے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے دوران یہ کسی بھی سیاسی جماعت کا موقف نہیں تھا اور نہ آج ہے، بشمول تحریک انصاف-

پی پی پی کی سندھ حکومت سروسز پر تو سیلز ٹیکس وصول کررہی ہے لیکن جب بڑے جاگیرداروں کی زرعی آمدنی  پر آئین کے مطابق انکم ٹیکس کی بات آئے توا ُنہیں بھی سانپ سونگھ جاتا ہے۔ اس کے باوجود پی پی پی اور تمام دوسری جماعتیں غریب عوام کی نمائندہ ہونے کا دعوی کرتی ہے-

پنجاب میں بھی یہی کہانی ہے۔ یہاں بھی اسمبلی میں بڑے بڑے جاگیرداروں کا غلبہ ہے۔ وہ زرعی آمدنی پر آئین کے مطابق انکم ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں- یہاں اس ضمن میں بہت آسانی سے 300 بلین روپے اکٹھے ہوسکتے ہیں لیکن پنجاب حکومت نے  پچھلے مالی سال کے دوران صرف 830 ملین روپے وصول کیے۔ یہ کل ٹیکس کا 0.1 فیصد  تھا۔ ”خادمِ اعلیٰ” کے بعد تحریک ِ انصاف کی مخلوط حکومت نے اپنے اردگرد جاگیرداروں، جیسا کہ چوہدری، ملک، کھوسے،رانے، ٹوانے وغیرہ سے کبھی بھی زرعی آمدنی پر آئین پاکستان کے تحت ٹیکس وصول کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر وہ ایسا کرتے تو ان کی حکومت کے پاس بہت سی رقم فالتوہوتی اور کورونا وبا کا بہتر مقابلہ کر پاتے-  تحریک ِ انصاف کی قیادت  اقتدار میں آنے کے بعد آج تک شریف برادران اورآصف علی زرداری پر تنقید کرتی رہتی ہے. لیکن اُنھوں نے خود خیبر پختونخوا میں پچھلے سات سال میں ٹیکس کا نظام بہتر کرنے یا امیر جاگیرداروں سے زرعی آمدنی پر آئین پاکستان کے تحت انکم ٹیکس وصول کرنے کی زحمت نہیں کی ہے۔  پچھلے سات سال کے دوران صوبے کا زرعی آمدنی پرانکم  ٹیکس کا حصول کل محصولات  کا اوسطا ایک فیصد  بھی نہی رہا۔  بلوچستان کے حالات تو اور بھی خراب ہیں۔ یہاں  کسی بھی مالی سال کے دوران پانچ ملین روپے سےزائد زرعی آمدنی پرانکم ٹیکس وصول نہیں ہوا۔  تمام صوبوں میں امیر جاگیرداروں سے زرعی آمدنی پر آئین پاکستان کے تحت زرعی ٹیکس کا حجم بڑھانے کے لیے کوئی سیاسی جھکاؤ  دکھائی نہیں دیتا- یہ حق ان کو آئین پاکستان بنے کے وقت سے حاصل رہا ہے اور اٹھارہویں آئینی ترمیم سے اس کا کوئی تعلق نہیں–  آج کورونا کی وبا میں پہلے سے ہی غریب اوربدحال کاشت کار 17 فیصد سیلز ٹیکس اداکررہے ہیں۔ اُنہیں یہ ٹیکس زراعت کے لیے استعمال ہونے والی اشیا اور آلات پر ادا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی زمین پر اور ٹیکس بھی ہیں-ان ٹیکسوں کا بوجھ اُنہیں مزید غربت کی طرف دھکیل رہا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے سوچے سمجھے نافذ کردہ 17 فیصد سیلز ٹیکس نے عوام کی کمرتوڑ دی ہے۔  وفاقی حکومت نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اس کا پاکستان کی زراعت اور غریب، بدحال کاشت کاروں پر کتنا منفی اثر ہوگا۔ اونچی شرح کے بالواسطہ ٹیکسز نے دیہی علاقوں میں عوام کی بڑی تعداد کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیا ہے۔ اس پر مستزاد،  بہت سے علاقے ٹڈی دل سے بھی شدید متاثر ہوئے ہیں اور ٹیکسز میں وفاقی اورصوبائی حکومتوں نے کوئی کمی نہیں کی اور کہا ہے شکر کریں کہ ہم نے کوئی نیا ٹیکس نافذ نہی کیا ۔  کاشت کار سالانہ لاکھ  سے زائد ٹریکٹر خریدتے ہیں اور وہ اس پر سیلز ٹیکس وفاقی حکومت کو دیتے ہیں۔ یہی صورت ِحال کھادوں اور زرعی ادویات کی ہے، لیکن حکومت دولت مند اور غیر حاضر جاگیرداروں کی زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کے لیے تیار نہیں جن کے باغات کروڑں کے ٹھیکے پر جاتے ہیں۔  اس طرح کی آمدنی پر ٹیکس نہ لگانا اور زرعی پیداوارکا جی ڈی پی  کے حجم  میں مسلسل  کمی ہونا افسوس ناک ہے۔ اس سال ہم 6 ملین کاٹن بیلس کی درآمد کر رہے ہیں.  تاہم یہ معاملات وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

وفاق اور صوبے، دونوں بڑے جاگیرداروں کی زرعی آمدنی پر آئین پاکستان کے تحت انکم ٹیکس لگانے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی وجہ  ان کی سیاسی قوت ہے۔ اسمبلیوں میں موجود جاگیردار یہ ٹیکس آئین پاکستان کے مطابق لگانے کی کبھی اجازت نہیں دیں گے اور تحریک انصاف ان کو ناراض کرکے حکومت  سے فارغ ہو سکتی ہے-

اس تمام مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس کو  وفاقی حکومت کے سپرد کردیا جائے اور اشیا پر سیلز ٹیکس صوبوں کو واپس دے دیا جاے جو ان سے آزادی کے بعد لیا گیا-  پاکستان کے بہت سے معاشی مسائل کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کے وسائل اور اختیارات مراعات یافتہ طبقات کے پاس ہیں- وہ بدعنوان سرکاری افسران کی پشت پناہی کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اگر پاکستان ان مسائل کے گرداب سے نکلناچاہتا ہے تو اس شراکت داری کو توڑنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو بااختیار بنایا جائے۔اس مقصد کے لیے طاقت کا ارتکاز سیاست دانوں سے چھین کرعوام کونچلی مقامی  حکومت کی سطح تک منتقل کیا جائے جو آئین پاکستان  کے آرٹیکل 140 کا تقاضا بھی ہے ۔ ضروری ہے کہ فیصلے عوام، نہ کہ سرکاری افسران کریں۔ عوامی نمائندے اور سرکاری افسران عوام کے سامنے جواب دہ ہوں اورکوئی طاقت ور ادارہ ان کے جرائم پر پردہ نہ ڈال سکے اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی روش پوری نہ کر سکے-


  • 136
  • 8
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
    144
    Shares
Previous Post

I wish Bibi was alive today

Next Post

How Hard Must Life Be, To Be Wanting To Take Your Own Life. (A Suicide Post)

Next Post
The Rebel Girl’s Dilemma

How Hard Must Life Be, To Be Wanting To Take Your Own Life. (A Suicide Post)

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent News

  • FATF: Pakistan’s tough test in June 2021
  • مسیحا
  • The government has no choice but to lead Pakistan’s digital transformation: Chairperson STZA

Category

  • Art and Culture
  • Economy
  • Feica's Cartoons
  • Food Reviews
  • Life and Style
  • Mobile Reviews
  • National
  • News
  • Opinion
  • Politics
  • Satire
  • Sports
  • Technology
  • Travel
  • Uncategorized
  • Videos
  • What's In
  • World
  • اردو کالم
  • About Us
  • Our Team
  • Contact Us

© 2021 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.

No Result
View All Result
  • Home
  • What’s In
  • National
  • Videos
  • Life and Style
  • Economy
  • Opinion
  • Technology
    • Mobile Reviews
  • Sports
  • Travel
  • اردو کالم
  • Satire

© 2021 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Create New Account!

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In