15 2 0 - 17Shares
کموں شہید اور کوٹ سبزل سندھ اور پنجاب کا بارڈر ہے لیکن ایک قدم کے فاصلے سے دنیا ہی تبدیل دکھاٸی دیتی ہے۔ دونوں اطراف کے باسیوں کو ریاست بھی ایک أنکھ سے نہیں دیکھتی اور انصاف کے معیار بھی یکساں نہیں۔
کہتے ہیں انصاف اندھا ہوتا ہے لیکن خدا کی اس سرزمین پر اک ملک ایسا بھی ہے جہاں انصاف کانا ہے اور وہ تمام فیصلے اک أنکھ سے دیکھ کر کرتا ہے۔ قانون سے مملکت خدادا کے ہر شہری سے مساوی انصاف کی لگتا ہے کہ أنکھ کےپیداشی نقص (eye patch)کی وجہ سے منصف ایک طرف ہی دیکھ پاتا ہے۔ جس کی وجہ سےملک کا انصاف کا ترازو ایک طرف جھکا ہوا لگتا ہے۔ لیکن ”وہ“ مطمٸن ہیں کہ اس نقص کے باوجود اس ملک کی غالب اکثریت 65 فیصد کو انصاف مہیا ہو جاتاہے۔ جب پوچھا گیا کہ ناانصافی کی اس لکیر سے باقی 35 فیصد مکین مطمٸن ہیں تو جواب أیا کہ سو فیصد نتاٸج تو دنیا کا مہزب ترین معاشرہ بھی نہیں دیتا۔ انہوں نے میرے 35 فیصد کے دعوے پر بھی اعتراض کیا کہ اس حصے میں بھی ہمارے ہم خیال ہم مطمٸن ہیں اور ہمارا اطمینان کافی ہے۔
جب یاد دلایا کہ نا انصافی کی لکیر کی وجہ ے پہلے بھی أپ کا ملک ٹوٹا تو جواب أیا کہ وہ ماضی کی باتیں ہیں اب ملک محفوظ ہے۔
جب پوچھا گیا کہ ایک تاثر ہے کہ قانون کی تمام تر نوازشیں اور أسایشیں 65 فیصد کے ایک خاندان پر ہی کیوں اور قانون بار بر ہمیشہ ان کے لیے موم کی ناک کیوں بن جاتا ہے۔تو جواب أیا کہ عدلیہ کا ہر فیصلہ پر ہم لبیک کہتے ہیں۔
میں کموں شہید اور کوٹ سبزل پر بنے پل صراط پر کھڑا ہوں اور ایک قدم اٹھانے سے منظر بدل جاتا ہے۔ عموماً پل علاقوں اور باسیوں ایک دوسرے سے ملاتے ہیں لیکن اس پل کی تعریف یہ ہے کہ یہ تقسیم کرتا ہے۔ کوٹ سبزل کی لکیر کے پار والوں پر ریاست کی تمام عنایتیں اور نوازشات ہیں لیکن لکیر کے اس پار کموں شہید کے باسی اس کرم نواٸی تو کیا انصاف سے بھی محروم ہیں اور ریاست کی نظر میں کم تر ہیں۔ ایسا کیوں؟ وہ بھی اسی ریاست کا حصہ ہیں۔ اس ملک کے بانی کا تعلق بھی اسی دھرتی سے ہے اور ان کی أخری أرام گاہ بھی یہیں ہے۔ کوٹ سبزل سے تین وزرا ٕ اعظم کی لاشیں بھی کموں شہید کی دھرتی پر أییں پھر بھی یہی معطوب ٹھہرے۔ کوٹ سبزل والوں پر تو ریاست بھی مہربان اور ادارے بھی۔ وہاں کے باسی قاضی القضا ٕ سے سزا یافتہ ہو کر بھی أزاد فضاوں میں او کموں شہید والا ناکردہ جرم میں پھانسی چڑھ جاتا ہے ۔ کموں شہید کے باسیںوں نے یہ بھی انہونی دیکھی کہ ان کے قیدی أج بھی کوٹ سبزل کے قید خانوں اور کٹہروں میں پیش ہوتے ہیں۔أخر اتنی نفرت اتنا تعصب کیوں؟
اسی دھرتی کے باسی کا عدالتی قتل منصف نے بھی مانا لیکن تاریخ کی یہ غلطی سدھارنے کی منصف بھی بڑا پن نہ دکھا سکے۔ باوجود اس کے کہ ملکی کو ایٹمی قوت بنانے۔ ہاری ہوٸی جنگ میں ملک کے 90 ہزار فوجی قیدی اور لاکھوں ایکڑ زمین بھی بغیر دھیلہ خرچ کیے واپس لی لیکن اسی فوج کہ سپہ سالار کی ایمإ پر اسے تختہ دار پرچڑھا دیا گیا۔ یہی نہیں اس کی بیٹی کو بھی کوٹ سبزل کی دھرتی پر ہی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ أخر بلا وجہ نفرت کی یہ أگ کب ٹھنڈی ہو گی۔
کوٹ سبزل کے ایک سزا یافتہ قیدی پر ملک کے عدالتی نظام نے اتنی مہربانی کی کہ قید خانے سے اٹھا کر اسے دوسری بار بیرون ملک بھیج دیا۔ ہمیں اس پر اعتراض نہیں دونوں بار وہ بھی ضمیر کا قیدی تھا اور کسی کی نفرت کی بھینٹ چڑھا ۔ شکر ہے اس کا انجام کموں شہید کے باسی کی طرح کا نہ ہوا۔ لیکن کموں شہید کے کچھ باسی اب بھی دارلخلافہ میں قانون نہیں بلکہ تعصب اور نفرت کی قید میں ہیں۔ یہ بھی گوشت پوست کے انسان ہیں یہ بھی بیمار ہو سکتے ہیں اور شدید بیمار ہیں لیکن لاڈلے اور ”حکمرانوں“ کے غیض و غضب کا شکار ہیں۔ ان کی کوٸی سنواٸی نہیں۔ کوٹ سبزل کے باسی کو تو اس لییےعلاج کے لییے باہر بھیج دیاگیا کیونکہ بھٹوکی طرح اگر کوٹ سبزل کو بھی شہیدمل گیا تو اقتدار کی کٹھ پتلیوں کا تماشا کرنے والوں کے ہاتھوں سے کموں شہید کی طرح کوٹ سبزل بھی نکل جاے گا۔ پھر یہ کیا بیچیں گے۔ لیکن کسی کو یہ خیال نہیں کہ اگر خدا نخواستہ گڑھی خدا بخش میں ایک قبر کا اور اضافہ ہو گیا تو نفرت کی یہ لیکر کربلا اور کوفہ کی لکیر نہ بن جاے۔
سلام ہے چیف جسٹس جناب أصف سعید کھوسہ کو کہ کس معاملہ فہمی سے توسیع کے معاملے کا أٸینی توضیع نہ ہونے کے باوجود بھی ملک کو بحران سے بچا لیا۔ میری ان سے التماس ہے کہ کم از کم جب تک وہ ہیں کوٹ سبزل اور کموں شہید والوں کو انصاف کے یکساں مواقع فراہم کر جایں۔ اور اس لکیر کو کربلا اور کوفہ میں بدلنے سے بچایں۔ پاکستان پایند باد
15 2 0 - 17Shares