Surkhiyan
  • Home
  • What’s In
  • National
  • Videos
  • Life and Style
  • Economy
  • Opinion
  • Technology
    • Mobile Reviews
  • Sports
  • Travel
  • اردو کالم
  • Satire
No Result
View All Result
No Result
View All Result
Surkhiyan
No Result
View All Result
Home اردو کالم

نظام محصولات، سماجی انصاف اور معاشی ترقی

سماجی انصاف جس میں سب کے لئے ایک جیسے مواقعے ہوں‘ صحت عامہ اور تعلیم کا مساوی نظام ہو، پینے کا صاف پانی، اچھی رہائش گاہ ہو اور معقول سفری سہولیات ہوں، کا حصول ممکن ہے اگر ہم اپنے نظام محصولات کو معاشی ترقی کے لئے سودمند بنائیں نہ کہ اس کی تباہی کا باعث جو ہر حکومت کرتی رہی ہے اور تحریک انصاف بھی کچھ مختلف ثابت نہیں ہو رہی۔ IMF اور ورلڈ بینک کے ایجنڈا توعوام دوست نہیں ہے اور نہ کبھی ہوا ہے. ان کے کسی بھی پروگرام میں طبقاتی نظام اور ڈھانچے میں تبدیلی کا ذکر تک نہیں ملتا-

ڈاکٹر اکرام الحق by ڈاکٹر اکرام الحق
December 23, 2019
in اردو کالم
0 0
0

Dr. Ikramul Haq

  • 156
  • 11
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
    167
    Shares

نظام محصولات، سماجی انصاف اور معاشی ترقی کے درمیان گہرا تعلق ہے۔ کسی بھی معاشرے میں ریاست، سیاست، معیشت، حکومت اور قانون کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔ معاشرے کے تاریخی ارتقا کو مجموعی تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے کے بعد ہی ریاست اور شہریوں کے مابین سماجی  معاہدے کی ماہیت اور فعالیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات (صحت، تعلیم، رہائش، پینے کا صاف پانی وغیرہ) دینے میں ناکام ہے تو اِس کا ایک لازمی نتیجہ  معاشرتی بے اطمنانی ، لا قانونیت، مایوسی،  معاشی بد حالی اور ترقی کی نمومیں نمایاں سست روی ہے۔ غیر منصفانہ معاشی ڈھانچے کا لازمی نتیجہ دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز اور غربت کی موجودگی اور اس میں اضافہ  ہے۔ بارہا اِن ریاستی کمزوریوں اور زیادتیوں کا تذکرہ لوگ اپنی تحریروں اور تقریروں میں کرتے ہیں مگر صورتِ حال میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ عمرانیات،سماجیات، معاشیات اور سیاسیات کے ماہرین کے تجزیے اور بہتری کے لئے کئی حل تو موجودہ ہیں مگر طاقتور طبقات اپنے مفادات کی خاطر استحصالی نظام کا ہمیشہ تحفظ کرتے ہیں اور بہتری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔اس ضمن میں تفصیلی بحث آپ کو برابری پارٹی پاکستان کے منشور میں ملتی ہے – اور کسی بھی سیاسی جماعت نے اب طبقاتی نظام کے خاتمے کا ذکر بھی چھوڑ دیا ہے.https://barabripartypakistan.pk/wp-content/uploads/2019/10/Introduction.pdf

 

آئین پاکستان میں درج بنیادی حقوق جیسے کہ سب کے لئے مناسب سہولیات کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق (آرٹیکل 9 اور 14 ) یا پانچ سے سولہ سال تک مفت اور لازمی تعلیم کا حق(آرٹیکلA25) کی خلاف ورزی کا ذکر ہماری سب سے اعلیٰ ترین عدالت اور ہائیکورٹ کے فیصلوں میں جابجا ملتا ہے۔ مگر ضروری سوال وہی ہے: اِن فیصلوں پر عملدرآمد کیوں نہیں ہوتا؟ سب جانتے ہیں کہ طاقتور استحصالی طبقے ایسا نہیں ہونے دیتے۔ معیشت پر قابض طبقے ہی سیاست اور ریاست پر حکمرانی کرتے ہیں، عوام نہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ قانون ساز اداروں (مقننہ) میں بیٹھے ہوئے منتخب افراد بے حس ہیں یا کوئی اور وجہ ہے کہ وہ سماجی انصاف اور بنیادی حقوق کی طرف اِس قدر غیر ذمہ دارنہ رویہ رکھتے ہیں۔ یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے کہ اگر نوجوان روزگار کے لئے پریشان ہیں اور عوام معاشی طور پر بے حال تو اصل ذمہ دار کون ہے۔ ظاہر ہے طبقاتی نظام میں یہ بہت بنیادی سوال ہے اور محض آئین کی شقیں اُس کا حل پیش نہیں کرتیں۔

 

تمام شہریوں کو حق برابری حاصل نہیں، بنیادی سہولیات کی فراہمی کا فقدان ہے اور معاشی ناہمواریوں کا دکھ ہر درد دل رکھنے والے پاکستانی کو ہے مگرکیا وُہ جمہوریت میں حق رائے دہی رکھنے کے باوجود اس صورت حال کو تبدیل کر سکتے ہیں؟ یہ سوال اُس معاشی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سیاست پر جمہور کا نہیں استحصالی قوتوں کا قبضہ ہے۔ استحصال کو ختم کئے بغیر یعنی آئین کے آرٹیکل 3 پر عمل کئے بغیر عوامی امنگوں اور خواہشات پر مبنی جمہوری معاشرے کا قیام ممکن نہیں۔ استحصال کے خاتمہ کے لئے معاشی انصاف کا ہونا لازم، محض قوانین بنانے سے لوگوں کو معاشی انصاف فراہم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی  بنظیر انکم سپورٹ پروگرام یا ‘احساس’ جیسے منصوبوں کی مدد سے۔ معاشی انصاف ہی سماجی انصاف اور جمہوری معاشرہ کی بنیاد ہے۔ جب تک معاشی انصاف نہیں ملتاحقیقی جمہوریت کا حصول ممکن نہیں چاہے کتنے ہی انتخابات منعقد کئے جائیں۔ مزید تفضیلات کے لئے یہ لنک دکھیں-

https://barabripartypakistan.pk/manifesto/

 

[PLD 1994 SC 693]معاشی انصاف کے لئے عدالت عظمیٰ پاکستان کے فیصلہ بعنوان مس شہلا ضیا بنام سرکارِ پاکستان کا حوالہ بہت  دیا جاتا ہے مگر 25 سال گزر جانے کے بعد بھی کسی سیاسی جماعت اور حکومت نے اِس پر عمل کرنے کی طرف  توجہ نہیں دی۔ یہ ہے مملکت خداداد میں انصاف کا حال جس کا تذکرہ تو بہت ہوتا ہے مگر عمل درآمد بہت ہی کم- پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آنے کے بعد اس پر  کام تو کر رہی ہے اور سنجیدہ بھی ہے- مگر معاشی ناہمواریوں کو ختم کرنے کا کوئی منصوبہ تب تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک معاشی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی نہ کی جائے یعنی اس کو  بالا دست طبقات کے ہاتھوں سے آزاد نہ کیا جائے اور اس کے لئے کمزور طبقات کی حمایت ضروری عمل ہے جس کے لئے اب کوئی بھی سیاسی جماعت آمادہ نہیں-

 

معاشی انصاف کے لئے سیاسی جماعتیں کس قدر سنجیدہ ہیں اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کسی کے پاس بھی شہریوں کے لئے روزگار، کام کے مطابق معاوضہ،محصولات سے سماجی پروگراموں پر عملدرآمد کا ٹھوس پروگرام ہے ہی نہیں۔ الفاظی پر مبنی منشوروں میں حسین خوابوں کا ذکر تو ہے مگر قابل عمل تفصیلی پرگرام کا مکمل فقدان ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اپنے منشور کے بارے میں اس قدر لاتعلق اور غیر سنجیدہ کیسے ہو سکتی ہے؟ مگرلوگ کہتے ہیں، ”پاکستان میں سب چلتا ہے‘‘۔ جی ہاں یہ سچ ہے کہ پاکستان میں سب چلتا ہے مگر دردِدل رکھنے والے سوال کرتے ہیں کہ ظلم کی یہ  نظام کب تک چلے  گا؟ کیا حکمرانوں اور قوم نے ماضی میں ہونے والے سانحوں سے کوئی سبق حاصل کیا ہے یا نہیں؟ اگر موجودہ ناانصافی کا نظام چلتا ہے تو اس کا نتیجہ بھی خوشگوار نہیں ہوسکتا جیسا کہ 1971ء کے عظیم سانحہ نے ثابت کیا۔

 

سماجی انصاف جس میں سب کے لئے ایک جیسے مواقعے ہوں‘ صحت عامہ اور تعلیم کا مساوی نظام ہو، پینے کا صاف پانی، اچھی رہائش گاہ ہو اور معقول سفری سہولیات ہوں، کا حصول ممکن ہے اگر ہم اپنے نظام محصولات کو معاشی ترقی کے لئے سودمند بنائیں نہ کہ اس کی تباہی کا باعث جو ہر حکومت کرتی رہی ہے اور تحریک انصاف بھی کچھ مختلف ثابت نہیں ہو رہی۔ IMF اور ورلڈ بینک کے ایجنڈا توعوام دوست نہیں ہے اور نہ کبھی ہوا ہے. ان کے کسی بھی پروگرام میں طبقاتی نظام اور ڈھانچے میں تبدیلی کا ذکر تک نہیں ملتا–

 

محصولات کو معاشی انصاف اور ترقی کے لئے استعمال کرنا کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہا۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ عوام کی محنت سے حاصل رقوم کو اشرافیہ کی عیاشیوں کے لئے استعمال کیا جانا ہے۔ نظام محصولات کو منصفانہ بنانا سماجی انصاف کی شرطِ اول ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں منصفانہ نظام محصولات میں ہر ایک سے اُس کی بساط کے مطابق ٹیکس وصول کر کے اُسے تمام شہریوں کی بہتری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ہے ایک فلاحی ریاست کا تصور جس سے ہم دن بہ دن بہت دور ہوتے جا رہے ہیں گو نعروں میں اس کا ذکر ہمیشہ کی  طرح جاری ہے اور وزیر اعظم محترم عمران خان ہر تقریر میں اس کا ذکر ضرور کرتے ہیں-

 

مغربی جمہوری معاشروں میں لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں تو اُن کو بعد میں اس   وغیرہ جیسے (Pension)  اور پنشن (Social Security)مد میں سماجی تحفظ اورفواید حاصل ہوتے ہیں۔ نظام محصولات تمام حکومتی اخراجات (جائز حدود کے اندر) پورا کرتا ہے۔ ترقی کے منصوبوں کے لئے ذرائع مہیا کرتا ہے اور تمام تر سماجی خدمات کے لئے ضروری رقوم کی بروقت ترسیل بھی۔ اسطرح محصولات قومی امانت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اور فلاحی ریاست کے لئے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ ہمارا موجودہ نظام یہ نہیں کر رہا بلکہ امیروں کو امیر ترین بنا رہا ہے اور غریبوں کو غریب تر۔ زکوٰۃ و صدقات جو لوگ اپنے طور پر دے رہے ہیں وہ فلاحی ریاست کا قیام نہیں کر سکتے ہاں نیکی کے عمل کے طور پر قابلِ ستائش ہیں۔ جو محصولات اکٹھے ہوتے ہیں ان کا بڑا حصہ ریاستی اشرافیہ کی فلاح و بہبود کے لئے ہیں۔ اُن کے عالی شان محل، گاڑیاں، آسائشیں، کلب، محافظ کس کس چیز کا ذکر کیا جائے۔ اِس کے مقابلے میں کسان اور مزدور محنت کرنے کے باوجود مشکل زندگی گزارتا ہے۔ اُن کے لئے تعلیم اور علاج معالجے کی سہولت دور دور تک میّسر نہیں اورنجی سکول اور ہسپتال لوٹ مار پر لگے ہوئے ہیں۔ یہ ہے مملکت پاکستان کا اصل المیہ!

 

تعلیم، صحت اور روزگار فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے ورنہ اُس کو محصولات اکٹھا کرنے کا حق نہیں—آئینی جمہوریت کا یہ بنیادی اصول ہے-  تمام لوگوں کو قومی وسائل میں جائز اور مساوی  حصہ نہ ملنا دراصل اُن کے حقِ نمائندگی کی نفی ہے۔ کاش منتخب افراد اُسکو محسوس اور تسلیم  کریں۔

 

آج پاکستان میں محنت کش عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اور اشرافیہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں مصروف ہے۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے فلاحی ریاست کا قیام ضروری ہے جو منصفانہ نظام محصولات اور عوام کو بنیادی حقوق ادا  کیے بغیر ممکن نہیں۔ ہمارے آئین کے آرٹیکل 38میں واضح طور پر درج ہے کہ مملکت عام آدمی کے معیار کو بلند کر کے دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند ہاتھوں میں جمع ہونے سے روکے گی کیونکہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ آرٹیکل اِس بات کا بھی اعادہ کرتا ہے کہ آجروماجور ، زمیندار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلالحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل قومی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کی جائے گی۔ کہاں یہ وُہ مملکت جس کے لئے آئینِ پاکستان میں یہ سب کرنے کا عندیہ1973ء میں دیا گیا تھا۔ آئندہ چند ہفتوں کی تحریروں میں ایک فلاحی ریاست کے لئے منصفانہ نظامِ محصولات کی مبادیات اور جزوئیات پر تفصیلاً روشنی ڈالیں گے اس اُمید کے ساتھ کہ یہ زبان خلق بن کر نقارہ خدا ہو سکے اور حکمران کو مائل کر سکے کے وہ اپنی آئینی اور اخلاقی ذمداریاں پوری کریں جس کے لئے ان کو عوام نے ووٹ دے کر اقتدار بخشا۔ یہ اقتدار ایک مقدس امانت ہے اور اس میں خیانت جرم کے زمرے میں اتا ہے.

 


  • 156
  • 11
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
    167
    Shares
Tags: تعلیم کا مساوی نظامجمہوری معاشرہحق برابریسماجی انصافصاف پانیصحت عامہنظام محصولات
Previous Post

Equal rights as citizens, not just as minorities

Next Post

”پارٹی جاری رہے گی لیکن کچھ تبدیلیوں کے ساتھ“

Next Post
Shafiq Awan

”پارٹی جاری رہے گی لیکن کچھ تبدیلیوں کے ساتھ“

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent News

  • غلط فیصلے
  • An open letter to PM Imran Khan and followers
  • The Pawri has just begun

Category

  • Art and Culture
  • Economy
  • Feica's Cartoons
  • Food Reviews
  • Life and Style
  • Mobile Reviews
  • National
  • News
  • Opinion
  • Politics
  • Satire
  • Sports
  • Technology
  • Travel
  • Uncategorized
  • Videos
  • What's In
  • World
  • اردو کالم
  • About Us
  • Our Team
  • Contact Us

© 2021 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.

No Result
View All Result
  • Home
  • What’s In
  • National
  • Videos
  • Life and Style
  • Economy
  • Opinion
  • Technology
    • Mobile Reviews
  • Sports
  • Travel
  • اردو کالم
  • Satire

© 2021 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Create New Account!

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In