25 0 - 25Shares
شفیق اعوان
سرگوشیاں
“Party will continue but with minus some participants”
أجکل ملک کے طول و عرض میں پی ٹی آئی کی نوائیذدہ حکومت کے حوالے سے ہر کوٸی ” Party is over ” کا راگ الاپ رہا ہے وجہ صاف ظاہر ہے عمران خان کے بیانیے اور پالیسیوں سے ملک رک سا گیا ہے۔ہر شعبے پر جمود طاری ہے سوائے حکومتی پارٹی کی کور کمیٹی کے کوئی بھی ان ک کارکردگی سے مطمٸن نہیں اور اب تو پارٹی کے اندر سے أوازوں کے علاوہ اتحادی بھی برملا تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ملک جل رہا ہے لیکن حکومت چین کی بنسری بجا رہی ہے ۔ البتہ اب کہا جا رہا ہے کہ پارٹی جاری رہے گی البتہ کچھ کردار ادھر ادھر ہو سکتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر کوٸی انہونی نہ ہو گٸی تو بات مارچ سے أگے نہیں جاے گی ۔ لیکن دوسری طرف حکمران جماعت اس سے قطعاً انکاری ہے۔
حکومتی اتحاد کے ایک سنٸیر ترین ممبر اور حکومتی عہدو ں پر فاٸز رہنے والے ملکی سیاست میں فعال خاندان کے ایک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومتی اراکین بھی اپنی جماعت کے طرز حکومت سے شاکی ہیں۔انہیں بھی حلقے میں عوام کا سامنا کرنا ہوتا ہے لیکن عوام کی طرف سے اٹھاے گۓ سوالوں کے جوابات ان کے پاس بھی نہیں ۔ اور اس کا سیاسی نقصان آیئندہ انتخابات میں سامنے آئے گا ۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ان کو بھی شدید تحفظات ہیں ان سے بھی معاہدوں کا پاس نہیں کیا گیا۔ لیکن وہ اس حق میں نہیں تھے کہ بیڈ گورنس کی وجہ سے حکمران جماعت کو ہی اقتدار سے باہر کرنے کی باتیں کی جایں ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کرنا عوام کا حق ہے جس کو سلب کرنے کی ہر ممکن مزاحمت کریں گے۔
ماضی کی مثالیں دیتے ہوے انہوں نے کہا کہ جب جب بھی گڈ گورنس کا معاملہ اٹھا یا کوٸی اور مسٸلہ بنا تو وزیر اعظم اور وزیر اعلی بھی تبدیل ہوتے رہے۔اگر ناقدین اور اپوزیشن کی بات مان بھی لی جاۓ اور صورتحال اتنی ہی خراب ہے جتنی بیان کی جا رہی ہے تو یہی فارمولا یہاں بھی اپنایا جا سکتا ہے نہ کہ “Party is over” کی بات کی جاے ۔ جو ایسا سمجھتے ہیں ان کی خام خیالی ہے۔مینڈیٹ پانچ سال کے لیے دیا گیا اور مدت پوری ہونی چاہیے اس کے بعد کے مینڈیٹ کا فیصلہ عوام کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ابھی ”پارٹی جاری رہے گی البتہ کچھ شرکا ٕ ادھر ادھر ہو سکتے ہیں“ ۔ جب پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے أپ کی اکثریتی اتحادی حکمران جماعت اس تجویز کو مان جاۓ گی جبکہ وہ ماٸنس عمران خان نظام ماننے کو تیار ہی نہیں اور عمران خان پنجاب میں تبدیلی کو ویٹو کر چکے ہںں تو ان کا جواب تھا انہیں امید ہے کہ جب بھی ایسا وقت أیا تو حکمران جماعت بہتر فیصلے کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس دنیا میں ناگزیر کوٸ نہیں لیکن اگر وقت أیا تو اس بات کے فیصلہ کا حق حکمران جماعت کو ہے اور قیاس أراییاں کرنے والوں کو گریز کرنا چاہییے۔ البتہ انہوں نے واضع کیا کہ ان کی جماعت حصہ بہ قدر جسہ سے ہٹ کر کچھ بھی طلب نہیں کرے گی اور جس کا مینڈیٹ ہے وہی جانے۔
جب پوچھا گیا کہ موجورہ دگرگوں سیاسی صورتحال کی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی أٸی میں جانے والے Electable اپنا مستقبل وہاں غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں اور ان کی اکثریت أپ کے گرد اکٹھی ہو رہی ہے کیونکہ شاید مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی انہیں قبول نہ کرے تو انہوں نے کہا ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور وہ کچھ بھی ہو جاے تعلق نہیں توڑتے ۔ البتہ انہوں نے دعوی کیا کہ مستقبل میں کوٸی بھی جماعت مرکز یا پنجاب میں ان کی شراکت داری کے بغیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہو گی۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے پی ٹی آئی سے کوٸی بھی اس پر کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بغیر کسی کے ماٸنس ہوے پارٹی جاری رہے گی ۔ پارٹی میں یا پارٹی سے باہر ماینس کی بات کرنے والے خود ماٸنس ہو جایں گے۔ جب پوچھا گیا کہ کیا پارٹی کے اندر بھی ماٸنس کی بات کرنے والے ہیں تو جواب دیا کہ ایسے عناصر ہر جماعت میں ہوتے ہیں۔ اور وضاحت دیتے ہوے کہا کہ اللہ کا شکر ہے تحریک انصاف کا کوٸی بنیادی رکن اس صف میں شامل نہیں۔
اس میں بھی کوٸی شک نہیں کہ ملک سیاسی۔ معاشی۔ امن و امان سمیت ہر طرح کے بحران کا شکار ہے۔ ملک کا 65 فیصد حصہ ، پنجاب ، اپنی تاریخ کے بد ترین انتظامی دور سے گزر رہا ہے۔ پنجاب میں گورننس نام کی چیز عنقا ہے جس کی ایک بدترین مثال پنجاب انسٹیٹوٹ أف کارڈیالوجی کا واقعہ ہے جس میں انتظامیہ پولیس اور حکومت مکمل ناکام ہوٸی اور بلواٸیوں کو ہسپتال پر حملے کی کھلی چھٹی دی گٸی جس کے نتیجے میں تین انسانی جانیں گٸیں ۔ یقیناٗ انسانی جانوں کا ازالہ ممکن نہیں لیکن ہم نے اس حرکت سے دنیا کو اپنے روویوں کے بارے میں کیا پیغام دیا۔ ایک عشرے بعد انٹرنیشنل کرکٹ ٹیم پاکستان أٸی لیکن اسی دوران ہم نے ہسپتال پر حملہ کر دیا۔ ہم کشمیر پر بھارتی ظلم و بربریت کی بات کرتے ہیں لیکن وہاں بھی ہسپتال بھارتی بربریت سے محفوظ رہے۔ پنجاب کے معاملات سے انکی اپنی جماعت اتحادی اور ”اداروں“ سمیت ہر کوٸی عثمان بزدار کی کے طرز حکومت سے شاکی ہے لیکن عمران خان ماننے کو تیار نہیں جس کی قیمت پنجاب اور ملک کے عوام دے رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ دھند کب چھٹتی ہے۔۔۔۔۔۔
25 0 - 25Shares