Surkhiyan
  • Home
  • What’s In
  • National
  • Videos
  • Life and Style
  • Economy
  • Opinion
  • Technology
    • Mobile Reviews
  • Sports
  • Travel
  • اردو کالم
  • Satire
No Result
View All Result
No Result
View All Result
Surkhiyan
No Result
View All Result
Home اردو کالم

چائے کی پیالی میں سونامی۔!!۔

ایک المیہ ہے کہ پنجاب جیسے صوبے کو ابھی تک عثمان بزدار جیسا مستقل ترجمان نہ مل سکا جو اس کی پالیسیوں کا اسی تسلسل سے تحفظ اور تشہیر کر سکے۔ اب تک تمام حکومتی ترجمان یا وزیر اطلاعات سمسٹر سسٹم کے تحت تین تین ماہ کے لیے آتے رہے اس عرصے میں وہ نہاتے کیا اور نچوڑتے کیا۔ ایسے میں حکومت کے یا بیانیے کی تشہیر یا تحفظ خاک ہو گا۔ فیاض چوہان کی بطور ترجمان یہ دوسری باری ہے لیکن جب یہ دھڑکا لگا رہے کہ اب گیا کہ تب گیا تو انہیں شیر شاہ سوری جیسے قلابے ملانےپڑتے ہیں۔ جب کسی کو پیشہ وارانہ بنیادوں پر کام نہ کرنے دیا جائے اور وفاداری بشرط استواری ہی اصل ایمان ٹھہرے تو بہتر نتائج کی توقع فضول ہو گی۔ عمران خان جس طرح بزدار بزدار کی تسبیح پھیرتے ہیں اسی طرح ترجمان پر بھی ہاتھ رکھیں۔

شفیق اعوان by شفیق اعوان
January 24, 2020
in اردو کالم
0 0
0
Shafiq Awan

Shafiq Awan

  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  

شفیق اعوان
سرگوشیاں

عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی آئی کی حکومت کو آئے دن نت نئے بحران کا سامنا رہا ہے اور روزِ اول سے ہی ان کی نائو گرداب میں پھنسی نظر آتی رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو ورثے میں ملی معاشی بدحالی، سیاسی عدم اِستحکام، بدانتظامی، بیڈ گورنس اور اتحادیوں کے مطالبات تسلیم کرنے کا گاہے بگاہے دبائو (عرف عام میں بلیک میل) ہے۔ سیاست میں ایسے اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں لیکن ناتجربہ کاری کی وجہ سے حکومت کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں جس کا فائدہ لا محالہ اپوزیشن اٹھاتی ہے۔المیہ یہ ہے کہ اس کارِ خیر میں حکومت کے خلاف اتحادیوں نے بھی حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ اتحادیوں کا دعوی ہے کہ جب لکھے گئے معاہدے پر عمل نہیں ہو گا تو لوہا گرم دیکھ کر دبائو ڈالنا ان کا حق ہے۔ کیونکہ انہیں بھی اپنے ووٹرز کو منہ دکھانا ہوتا ہے۔ موجودہ بحران میں حکومت کی بے چینی سے ظاہر ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اس بار حکومتی ایوانوں میں کھلبلی کا معاملہ چائے کی پیالی میں طوفان سے کہیں بڑھ کر ہے۔

باقی وجوہات کے علاوہ موجودہ سیاسی افراتفری کے ذمہ دار عمران خان کے اپنے اتحادی بھی ہیں جنہوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے حکومت کا بازو مروڑ کر کمر سے لگا دیا اور یہ تاثر دیا کہ حکومت اب گئی کہ تب گئی۔ سیاسی بصیرت سے عاری حکمران جماعت کا ہروال دستہ بھی اتحادیوں اور اپوزیشن کے اس پراپیگنڈے میں پھنس گئے اور مدلل جواب کی بجائے عمران خان کی طرح تمام تر طاقت اس نکتے پر لگا دی کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی اور عثمان بزدار پانچ سال پورے کریں گے۔ جہاں آپ کا دفاعی ہراول دستہ کسی سیاسی سمجھ بوجھ والے سنجیدہ لوگوں سے ہٹ کر فیصل وواڈا ، علی زیدی، شہریار آفریدی، فواد چوہدری، مراد سعید ، فیاض چوہان ، علی امین گنڈا پور ، شوکت یوسف زئی، زرتاج گل ، فیصل جاوید جیسے سیاسی نابلد جذباتی لوگ ہوں وہاں نتیجہ افراتفری ہی ہو گا۔ کیا وجہ ہے کہ شفقت محمود، پرویزخٹک، جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، اسد عمر جیسے لوگ بحرانوں میں ہی یاد آتے ہیں وجہ صاف ہے کہ یہ دھیمے لہجے کے اور رکھ رکھائو والے لوگ سیاسی اختلاف کو دشمنی یا نفرت کی نظر سے نہیں دیکھتے۔ شیخ رشید، شہزاد اکبر اور فردوس عاشق اعوان جیسے معاملہ فہمی سے عاری لوگ جب حکومت کی ترجمانی کریں گے تو خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ حکومت کو اب بھی چاہیے کہ اس کا کندھا استعمال کر کے اپنا سکور برابر کرنے والوں کو کم از کم ترجمانی کا فریضہ نہ سونپے ۔شیخ رشید کا کچھ نہیں بگڑے گا اس کی ایک سیٹ ہوئی نہ ہوئی ایک برابر ہے۔ لیکن اس کی بے سروپا باتیں حکومت کے لیے درد سر ہیں جس کا اظہار پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں بھی بارہا کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح فواد چوہدری کہ وزیر اعلی پنجاب کے خلاف حالیہ بیان کو بھی پارٹی میں ان کا مخالف دھڑا عمران خان کے خلاف چارج شیٹ قرار دےرہا ہے۔ فردوس شمیم نقوی ، علیم عادل شیخ اور خرم شیر زمان سندھ میں اپوزیشن کا کردار ضرور ادا کریں لیکن یہ کام شائستگی سے بھی ہو سکتا ہے۔

بقول منیر نیازی ’’کج انج وی راہواں اوکھیاں سن، کجھ سانو مرن دا شوق وی سی‘‘ کے مصداق یقیناً موجودہ حالات میں جلتی پر تیل کا کام کچھ وفاقی وزرا ٕ بھی پیش پیش رہے جن میں شیخ رشید، طارق بشیر چیمہ اورخود پی ٹی آئی کے فواد چوہدری پیش پیش ہیں۔ وفاق کی طرح پنجاب میں خاص طور پر اتحادیوں نے اپنے مفاد میں اس تاثر کو کچھ زیادہ ہی اجاگر کیا کہ حکومت صرف انہی کے دم سے ہے۔پرویز الٰہی جیسے جوڑ توڑ کے ماہر بیٹھے ہوں ، ہوائیں بھی موافق نہ ہو ایمپائروں کی طرف سے بھی نیوٹرل ہونے کا تاثر ملنے لگے تو حکومت کی بے چینی سمجھ آتی ہے ۔ جب ق لیگ کے کامل علی آغا یہ کہیں کہ عمران خان کے دور حکومت میں کرپشن کے ریٹ بڑھ گئے ہیں تو اسے پرویز الٰہی کی آواز سمجھنا چاہیے۔ اسی طرح وفاقی وزیر ہائوسنگ طارق بشیر چیمہ کی تنقید بھی پرویز الٰہی کی اشیرباد کے بغیر نا ممکن ہے۔ جب کامل علی آغا یہ کہے کہ نواز لیگ کی طرف سے انہیں پنجاب میں حکومت کی پیشکش ہے تو یقیناً اسے پرویز الٰہی کا موقف سمجھنا چاہیے لیکن اس پر ہاتھ پیر پھلانے کی بجائے اس کا سیاسی حل نکالیں۔ یہ بھی سوچیں کہ حالات اس نہج تک پہنچے کیسے؟ ان سب حالات میں عمران خان نے اتحادیوں اور اپوزیشن سے معاملات طے کرنے کے لیے جو ٹیم تشکیل دی ہے اس میں ان کے نوخیز چہیتوں کی جگہ پرویز خٹک سے لے کر جہانگیر ترین تک سب پرانے سیاسی کھلاڑی ہیں اس لیے انہیں سیاست کو بھی عزت دینا ہو گی۔

عمران خان کو وفود بھیجنے کی بجائے اتحادیوں سے براہ راست ملنا چاہیے تا کہ معاملات چلمن کے پیچھے کی بجائے آمنے سامنے طے ہوں۔

حکومت کے ایک اور اتحادی ایم کیو ایم کے بارے میں کیا کہنا۔ اپنے مطالبات منوانے کے لیے کب اور کتنا بازو مروڑا جائے وہ اس فن میں یکتا ہیں اور بھائو تائو کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ اس پر حکومت کی بد حواسیاں دیکھیں وہ معاملے کا سیاسی حل یا سیاسی چال چلنے کی بجائے باقی اتحادیوں سے بھی ہاتھ دھونا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی سندھ نے بھی ایم کیو ایم کی طرف سے براہ راست فنڈنگ کے مطالبے کی اصولی مخالفت کر کے عمران خان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ حکومتی وفد بھی کریڈٹ شیئر کرنے کی بجائے تمام کامیابیوں کا ٹیکہ اپنے ماتھےپر سجانا چاہتا ہے جس سے مزید غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم، ق لیگ یا بی این پی مینگل یا دوسرے اتحادی پی ٹی آئی کے دودھ شریک بھائی نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے اتحاد اصولوں پر ہوا تھا اور واحد مقصد حکومت بنانا تھا۔ سیاست بہت ظالم چیز ہے حکومت بچانے کے لیے کچھ نئے اتحادی بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے جو پی ٹی آئی میں عنقا ہے۔ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کوسندھ میں حکومت کی شرکت کی دعوت اور مسلم لیگ نواز کی پرویز الٰہی سے شراکت اچھی سیاسی چالیں ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے سیاست اسی کا نام ہے۔سیاست میں جزبات ، دشمنی یا مستقل دوستی نہیں ہوتی سیاسی تعلق ٹوٹتے بنتے رہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے سیاست میں عمران خان کا بیانیہ مخالفت نہیں دشمنی کی حدوں سے آگے نفرت تک جا پہنچا ہے۔ انہیں یہ رویہ بدلنا ہو گا۔

لیکن حالات کو اس نہج تک پہنچانے میں پی ٹی آئی کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو اپنی جماعت کے علاوہ اپنے اتحادیوں پر بھی نظر رکھنا ہو گی جو غلط فہمیوں کو ہوا دے رہے ہیں اور اپنا ماضی کا حساب برابر کرنے کے لیے اس مشکل وقت میں عمران خان کا کندھا استعمال کر رہے ہیں۔ شیخ رشید کا یہ کہنا کہ ق لیگ اور ایم کیو ایم سمیت کسی کو نئی وزارت نہیں ملے گی اور اسی تنخواہ پر کام کریں کا بیان انتہای غیرضروری تھا۔ اس کا مونس الٰہی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ لیکن حکومتی اور اتحادی حلقوں کا کہنا ہے کہ مونس الٰہی کا نام بھی ایک کمپنی Olive Grove Assets Limited کے حوالے سے مبینہ طور پر پانامہ سیکنڈل میں آتا رہاہے اور ان کی کابینہ میں شمولیت کا مطلب میڈیا اور اپوزیشن کی طرف سے تنقید اور عمران خان کے کرپشن کے خلاف بیانیے کی نفی ہو گی اور نواز شریف کے خلاف پانامہ کے حوالے سے الزامات اور تنقید بھی کمزور ہوگی۔کہتے ہیں شیخ رشید چوہدریوں سے اپنا پرانا حساب برابر کرنا چاہتے ہیں ۔مونس والے معاملے کا تعلق بھی ایک اتحادی وزیر سے جوڑا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے مونس الٰہی اس کمپنی سے اپنے تعلق کی سختی سے تردید کرتے رہےہیں۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری کی پنجاب حکومت پر تنقید کو عمران خان نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے پانچ سال پورے کریں گے۔ شیخ رشید نے اتحادیوں کو وزارتیں دینے کے حوالے سےکہا ان کو پیسے ویسے دیے جا سکتے ہیں لیکن وزارتیں ہر گز نہیں۔ وہ اسی تنخواہ پر کام کریں۔ ابھی ان کے اس بیان کی سیاہی خشک ہی نہ ہوئی تھی کہ وزیر اعظم کے دست راست نعیم الحق نے کہہ دیا کہ حکومت کے پاس فنڈز نہیں کہ اتحادیوں کے تمام مطالبات پورے کر سکیں۔ اور اتحادی حکومت سے تعاون جاری رکھیں۔ اتحادی بھی پریشان ہیں کہ کس پر یقین کریں۔

وزیر اعظم یا ان کی نااہل ٹیم نے وزیر اعلی پنجاب کو جگنو کی طرح ڈبیا میں بند کیا ہوا ہے۔ نہ پتہ چلتا ہے روشن ہیں یا اندھیرے کا مخزن۔ انہیں میڈیا کا سامنا کرنے دیں ، غلطیاں کرنے دیں، لیکن میڈیا کو فیس کرنے دیں۔ عثمان بزدار نہ میٹھی گولی ہیں کہ میڈیا انہیں نگل جائے گا نہ کونین کی گولی ہیں کہ اگل دے گا۔ان کی خاموشی اور اعتماد کی کمی کئی مسائل کی جڑ ہے۔ تازہ ترین بحران گندم اور آٹے کی کمی عثمان بزدار کو خود میڈیا میں آکر جواب دینا چاہیے تھا۔ لیکن بھانت بھانت کا حکومتی موقف اپوزیشن کے بیانیے کو مضبوط کر رہا تھا۔ ہر وزیر مختلف بولیاں بول رہا ہے جس سے کنفیوژن بڑھ رہی ہے۔ اس پر وزیر اعلی پنجاب کے آٹے کی تلاش میں ڈرامائی دورے اور خود عثمان بزدار کی طرف سے آٹے کے تھیلوں کی تقسیم کی فوٹو شوٹ نے صورتحال کو مزیدگھمبیر بنا دیا کہ کچھ تو ہے جس کی اتنی بے چینی ہے۔

پنجاب اور سندھ سے پی ٹی آئی کی قیادت اور وفاقی وزرا ٕ سندھ حکومت کو آٹے کی کمی کا موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔لیکن یہ بھول گئے کہ ان کے اپنے زیر حکومت صوبوں بلوچستان، پنجاب اور کے پی میں بحران سندھ سے زیادہ شدید ہے۔

پنجاب حکومت کا یہ حال ہے کہ وزیر اعلی، گورنر پنجاب اور سپیکر کسی بھی بحران کے وقت اپنی اپنی ڈفلی بجاتے ہیں۔ جس سے اپوزیشن فائدہ اٹھاتی ہے۔ خواجہ آصف نے حالیہ بحران میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کہا کہ 165ارب شوگر مافیا کے3 ناموں نے دہاڑی لگائی۔ گندم اور آٹے کے بحران میں کتنے سو ارب کا چونا لگا اس کا بھی جلد پتہ چل جائے گا۔ مجھے خواجہ صاحب کی بات پر پورا یقین ہے کیونکہ وہ ماضی کے ادوار میں ایسے بحرانوں میں بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے رہے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ سیاست میں strange bed fellows ہوتے ہیں اور کوئی بھی آپشن ناممکنات میں سے نہیں ہوتی لیکن میری رائے میں مسلم لیگ ن پرویز الٰہی کی بطور وزیر اعلی حمایت محض افواہ ہے۔

ایک المیہ ہے کہ پنجاب جیسے صوبے کو ابھی تک عثمان بزدار جیسا مستقل ترجمان نہ مل سکا جو اس کی پالیسیوں کا اسی تسلسل سے تحفظ اور تشہیر کر سکے۔ اب تک تمام حکومتی ترجمان یا وزیر اطلاعات سمسٹر سسٹم کے تحت تین تین ماہ کے لیے آتے رہے اس عرصے میں وہ نہاتے کیا اور نچوڑتے کیا۔ ایسے میں حکومت کے یا بیانیے کی تشہیر یا تحفظ خاک ہو گا۔ فیاض چوہان کی بطور ترجمان یہ دوسری باری ہے لیکن جب یہ دھڑکا لگا رہے کہ اب گیا کہ تب گیا تو انہیں شیر شاہ سوری جیسے قلابے ملانےپڑتے ہیں۔ جب کسی کو پیشہ وارانہ بنیادوں پر کام نہ کرنے دیا جائے اور وفاداری بشرط استواری ہی اصل ایمان ٹھہرے تو بہتر نتائج کی توقع فضول ہو گی۔ عمران خان جس طرح بزدار بزدار کی تسبیح پھیرتے ہیں اسی طرح ترجمان پر بھی ہاتھ رکھیں۔

انتباہ
اس تحریر میں تجزیہ کار/کالم نگار نے جو باتیں لکھی ہیں وہ مکمل طور پر ان کی ذاتی رائے ہے۔ سرخیاں کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
  •  
Previous Post

Karachi: Unwelcoming to Strong Women

Next Post

ٹيکس کی بنياد اور مفروضات

Next Post

ٹيکس کی بنياد اور مفروضات

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Recent News

  • Pakistan-US foreign policy!
  • غلط فیصلے
  • An open letter to PM Imran Khan and followers

Category

  • Art and Culture
  • Economy
  • Feica's Cartoons
  • Food Reviews
  • Life and Style
  • Mobile Reviews
  • National
  • News
  • Opinion
  • Politics
  • Satire
  • Sports
  • Technology
  • Travel
  • Uncategorized
  • Videos
  • What's In
  • World
  • اردو کالم
  • About Us
  • Our Team
  • Contact Us

© 2021 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.

No Result
View All Result
  • Home
  • What’s In
  • National
  • Videos
  • Life and Style
  • Economy
  • Opinion
  • Technology
    • Mobile Reviews
  • Sports
  • Travel
  • اردو کالم
  • Satire

© 2021 JNews - Premium WordPress news & magazine theme by Jegtheme.

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Create New Account!

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In