46 4 - 50Shares
شفییق اعوانکالم سرگوشیاں
خصوصی عدالت کی طرف سے سابق صدر مشرف کو سزاۓ موت پر ایک واویلا سا مچا ہے۔ کوٸی اسے آزاد عدلیہ کا انصاف پر مبنی ، مارشل لاء کا رستہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی نوید سنا رہا ہے، کوئی اس فیصلے کی ٹاٸمنگ کو ہماری تاریخ کے سیاہ دن 16 دسمبر سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے ۔اٹارنی جنرل بھی فرماتے ہیں اتنی جلدی کیا تھی أور کوٸی اسے جمہوریت کی جیت قرار دے رہا ہے۔ یہ محض ایک عدالتی فیصلہ اور اس کے ساتھ سابقے لاحقےلگانےکا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ ابھی ملزم کو اپیل کا حق بھی ہے جس میں اس کو ریلیف ملنے کے قوی امکانات ہیں۔
لیکن اس اپیل کا فیصلہ بھی آزاد عدلیہ کا امتحان ہو گااور یقیناً ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ ایک بات تو طے ہے کہ مشرف نے آٸین توڑا اور اس کی سزا بھی آٸین میں واضع ہے اب سپریم کورٹ پاک فوج کی اس فیصلے پر واضع ناراضگی پر اس بحران سے نکلنے کے لیے کیا رستہ نکالتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
حد تو یہ ہے کہ پاک فوج نے بطور ادارہ ملکی عدلیہ کے اس فیصلے کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا ہے اور اس فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوۓ ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے باقائدہ پریس ریلیز میں اس فیصلے کے لتے لیے گٸے ہیں اور کہاں گیا کہ مشرف کے ساتھ نا انصافی کی گٸی ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اس تحریر میں مشرف کے جرم کا بھی ذکر کر دیتے جس کو انہوں نے طاقت کے بل بوتے پر چلتا کیا۔ ہمیں پاک فوج کی قربانیوں اور ملک کے لییے ان کی خدمات کا اعتراف ہے اور پاک فوج ہی اس ملک کی محافظ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ فوج نے ہر أڑے وقت میں ملک و قوم کی خدمت کی۔ملکی سرحدوں کی حفاظت پر ہم ان پر نازاں ہیں۔ ملک کو دہشت گردی سے نکال کر امن کی شاہراہ پر ڈالنے پر افواج پاک کو سیلوٹ ہے۔ لیکن ایک آٸین شکن کی اس قدر کھل کر حمایت وہ بھی ایک عدالتی فیصلے کے خلاف سمجھ سے بالا تر ہے۔
پاک فوج کے احترام میں ان کے عدلیہ کے خلاف اس بیانیے پر کوئی بھی بات کرنے کو تیار نہیں۔
جب سے عدالت کا فیصلہ أیا تھا تو میڈیا چیخ چیخ کر اس فیصلے کو جمہوریت کی بقا قرار دے رہا تھا ۔ فوج کی طرف سے ردعمل اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز کے بعد میڈیا کو بھی سانپ سونگھ گیا۔ وہ اینکرز جو اچھل اچھل کر زمین و أسمان کے قلابے ملا رہے تھے جی ایچ کیو کے سخت موقف کے بعد جھاگ کی طرح بیٹھ گۓ یہ تھا ہمارے میڈیا کا کردار۔ یہ پی آئی سی کیس کے ایک ملزم حسان نیازی ایڈوکیٹ کی گرفتاری نہ ہونے پر تو ایسے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا جیسے مشرف نہیں وہ أٸین پاکستان کا مجرم ہے۔ لیکن فوج کا موقف أنے کے بعد أن سب نے چپ کا روزہ رکھ لیا۔
گو کہ وزیر اعظم عمران خان بیرون ملک ہیں اور اس حوالے سے ان کا موقف ابھی تک سامنے نہیں آیا لیکن اس کار خیر میں ان کی حکومت عدلیہ کے خلاف فوج کی ہمقدم ہے۔ یہ جانے بغیر کے ماضی میں عمران خان خود جنرل مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کا اس نوٹ کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ ”جس کی سزا موت“ ہے۔ عمران خان کہ یہ ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر ٹڈی دل کی طرح پھیلے ہیں لیکن کوٸی میڈیا ہاوس ان کلپس سے استفادہ کرنے کو تیار نہیں۔ میڈیا یہ کلپس عمران خان کے احترام میں نہیں دکھا رہا یا وجہ کوٸی اور ہے؟
عمران خان کابینہ کے 80 فیصد وہ اراکین عدلیہ کے اس فیصلے کے خلاف فوج کے ہمقدم ہیں جو مشرف کابینہ کا حصہ تھے اور أج عمران کابینہ میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف کے اصل اراکین اس مسٸلے پر لب کشاٸی کی بجاۓ خاموش ہیں یا حد درجہ محتاط ہیں۔ وہ عمران خان کے موقف کے منتظر ہیں۔ لیکن اس فیصلے نے پی ٹی أٸی میں عمران خان کے بیانیے اور ”شاملات“ کے کے موقف میں لکیر واضع ہو چکی ہے۔ شیخ رشید ،فواد چوہدری اورفردوس عاشق اعوان کے عدالتی فیصلے پر موقف سے لگ رہا ہے کہہ ان کو خصوصی عدالت کے فیصلے سے جتنی تکلیف ہوٸی ہے شاید جنرل مشرف کو بھی نہ ہوئی ہو۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ اس دوڑ میں اٹارنی جنرل بھی پیش پیش ہیں۔ اگر کوٸی عام أدمی ہوتا تو اب تک توہین عدالت کا نوٹس مل چکا ہوتا لیکن انتاٸی بااثر لوگ ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ وزیراعظم یا کابینہ کی طرف سے اس فیصلے پر اس طرح تنقید کر رہے ہیں جیسے یہ حکومت کا بیانیہ ہو۔
ایم کیو ایم نے بھی کھل کر عدالتی فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دے دیا جبکہ مسلم لیگ ق بھی عدالتی فیصلے سے شاکی نظر أٸی۔ مشرف ان دونوں جماعتوں کے خالق تھے اتنا حق تو بنتا ہے ان کا۔ مسلم لییگ فنکشنل کے پیر پگارا نے اظہار افسوس پر ہی اکتفا کیا۔
اس نقار خانے میں البتہ ایک دلچسپ آواز سناٸی دی جب مشرف کے وکیل نے لکھے گۓ ”پریس نوٹ“ میں سے اس عدالتی فیصلے کو شہید ذولفقار علی بھٹو کی سزاے موت کے فیصلے سے بھی برافیصلہ قرار دیا۔ یعنی طاقتور ترین ادارہ بھی بھٹو کی سزائے موت کو برا فیصلہ گردانتا ہے۔
سلام ہے بلاول بھٹو پر کہ جس نے سب سے پہلےخصوصی عدالت کے فیصلے کی تاٸید کی اور اسے جمہوریت کے لیے خوش آئند قرار دیا۔ لیکن مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف حسب معمول خاموش رہے۔البتہ مسلم لیگ نواز کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے اس فیصلے کو سراہا۔ اسفند یار ولی ۔حاصل بزنجو بھی عدلیہ کے فیصلے ک ساتھ ساتھ نظر آۓ۔
مشرف کے حامی میڈیاپر یہ کہتے نظر آۓ کہ اس فیصلے میں صرف مشرف کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اس وقت کی کابینہ اور چیف جسٹس ڈوگر اور وہ ججز بھی جو ذمہ دار تھے کو کیوں چھوڑا گیا۔ بلکل ٹھیک اعتراض ہے آپ کا سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل میں ان سب کو بھی شامل کر لیں۔ لیکن اس صورت میں عمران حکومت گر جاے گی کیونکہ 80فیصد کابینہ مشرف دور کی ہے۔ لیکن أپ ایسا کریں گے نہیں۔
ویسے بحران پر بحران ہمارا خاصہ بن چکا ہے لیکن ہم اس سے نجات کا رستہ نہیں ڈھونڈتے وقتی حل نکالتے ہیں اور ایک نٸے بحران کے منتظر رہتے ہںں۔ اگر ہم مخلص ہیں تو ایک رستہ ہے ایک نیا چاٹر لکھیں ماضی کی غلطیوں کو بھول کر پاکسان کی چاروں اکایوں اور فوج سمیت دوسری حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہوۓ ایک نٸۓ بیانیے کی بنیاد رکھیں۔ اور عہد کریں کہ آٸندہ ماضی کی مکروہ غلطیاں نہیں دہرایں گے۔سیاستدان ۔عدلیہ ۔فوج ۔ پارلیمنٹ ۔مڈیا اور دیگر ادارے سب اپنی اپنی غلطیوں کو تسلیم کر ایک نۓ معاشرےکی بنیاد رکھیں ۔۔مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔۔۔بس نیک نیتی چاہیے۔۔
انتباہ
اس تحریر میں تجزیہ کار/کالم نگار نے جو باتیں لکھی ہیں وہ مکمل طور پر ان کی ذاتی رائے ہے۔سرخیاں کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
46 4 - 50Shares