44 2 0 - 46Shares
بینظیر بھٹو کی بارویں برسی اور بلاول بھٹو کا سیاسی مستقبل
نقوی نامہ: حسن نقوی
محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کے روشن مستقبل کی نوید تھیں۔ آج سے بارہ سال پہلے انہیں 27 دسمبر2007ء کو انتہائی سفاکی کے ساتھ لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا تھا۔ اس سانحہ عظیم کو گزرے بارہ برس بیت گئے ہیں لیکن بی بی شہید کی یاد آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔
لیاقت باغ کی سیاسی تاریخ میں بھٹو خاندان کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس تاریخ ساز مقام پر بھٹو خاندان کےمتعدد افراد نے جلسوں کے ذریعے تاریخ رقم کی ہے۔
12 سال کے بعد یعنی آج 27 دسمبر 2019ء کوبھٹو خاندان کی تیسری نسل کے چشم وچراغ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری یہاں جلسہ عام سے خطاب کیا جو کہ لیاقت باغ میں ان کا پہلاجلسہ تھا۔

بی بی شہید کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو شہید کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے وقت سے لے کراپنی موت تک انہوں نے کٹھن ترین حالات کا سامنا کیا۔ ان کی زندگی قید و بند اور عظیم جدوجہد کی داستان ہے۔ ایک نہتی لڑکی نے جس ہمت و حوصلے سے مارشل لاء کے جبر اور ظلم و استبداد کا مقابلہ کیا وہ پاکستان کی تاریخ کا ناقابلِ فراموش واقعہ ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی سیاسی جدوجہد پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جائے گا لیکن اس طویل سفر میں ان کی شخصیت کو درپیش مشکلات اور مسائل کے علاوہ بیوی اور ماں کے کردار کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی شخصیت کے اس پہلو کو اجاگر کیا جاسکے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نہایت وفاشعار اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کی قید کے دوران ان کیلئے بھرپور مہم چلائی اور دنیا کے ہر فورم پر آواز اٹھائی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو بہت نرم دل خاتون تھیں۔ وہ عوام کا درد محسوس کرتی تھیں۔ اپنے شوہر سے وفاشعاری کو انہوں نے آخری دم تک نبھایا۔ آصف علی زرداری پر بدعنوانی کے مختلف الزامات لگائے گئے تو انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ طلاق لےلیں۔ لیکن بی بی نے ان تمام مشوروں کو مسترد کردیا۔ حکومت کے ایک ایلچی نے بھی بی بی شہید کو ایسا ہی مشورہ دیا تھا۔ تو بی بی نے اسے یہ جواب دیا تھا کہ کیا آپ میری زندگی تباہ کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنا گھر اور بچوں کا مستقبل برباد کردوں؟ انہیں اس بات کا بہت دکھ پہنچا کہ یہ لوگ ان سے آخر کیا چاہتے ہیں۔دراصل بی بی ایک وقت پر کئی محاذوں پر لڑرہی تھیں۔ ایک طرف ان کی خانگی زندگی کو خطرہ تھا، دوسری طرف ان کی سیاسی بقاء دائو پر لگی ہوئی تھی۔ انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ بدعنوانی کے الزامات اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مشکلات کی اصل وجہ ان کے شوہر آصف علی زرداری ہیں مگر بی بی نے ان تمام الزامات اور مقدمات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اسی لئے دو مرتبہ سوئزرلینڈ کی عدالت میں پیش ہوئیں اور نیکلس کے ترشے ہوئے افسانے کا بھانڈا بھی پھوڑا۔ جیولر نے خود عدالت میں پیش ہو کر کہا کہ اس نے بی بی کو کبھی نہیں دیکھا۔ بی بی شہید یہ کہتی تھیں کہ تمام مقدمات ان کے شوہر کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ ہیں۔ آصف علی زرداری پر منشیات کا ایک مقدمہ بنایا گیا اور ایک شخص سے اس ضمن میں اعتراف بھی کرایا گیا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے بعدازاں خود تسلیم کیا کہ وہ مقدمہ جھوٹ پر مبنی تھا۔
اپنے بچوں کی ماں اور باپ بن کر پرورش کرنا اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے شوہر کی سلامتی کیلئے ہر لمحے دعا گو رہنا، وہ دلگداز مراحل ہیں جن سے گزرنے والی عورت پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ بی بی ان تمام مراحل سے گزریں اور صبروشکر کی پیکر ثابت ہوئیں۔ ان تمام معاملات میں بی بی کا کردار ایک وفاشعار بیوی اور ذمہ دار ماں کے طورپر سامنے آیا۔
بی بی شہید اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو تعلیم مکمل کیے بغیر سیاست میں نہیں آنے دینا چاہتی تھیں۔ بی بی کی نظر میں تعلیم بلاول کی پہلی ترجیح ہونی چاہئیے تھی اور اس پر وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے آکسفورڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی سیاست کا آغاز کر دیا ہے اور پارٹی کے چیئرمین کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں۔ ان کی سیاست میں آمد سے ملکی سیاست میں ہلچل کا سماں پیدا ہوا ہے۔ اور اس وقت وہ پورے ملک میں پارٹی کی تنظیم نو کررہے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ بلاول کو ان لوگوں کا ساتھ نہیں ملےگا جو ان کی والدہ کے ساتھ تھے لیکن اسے یہ شرف حاصل ہے کہ وہ شہید بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے۔ جس طرح عوام کو بی بی شہید کی قیادت پر غیرمتزلزل اعتماد تھا۔ اسی طرح والدہ کے وارث ہونے کی حیثیت سے لوگوں کا اعتماد اب چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پر ہے۔ یہ وہی اعتماد ہے جو بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو کو منتقل ہوا تھا۔ بعض لوگ اسے سیاسی وراثت کہتے ہیں لیکن یہ اس سیاسی شعور اور عوام دوستی کا تسلسل ہے جو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانی عوام کو دیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ کی 12ویں برسی کے موقع پر کہا ہے کہ بینظیر بھٹو شہید عوام کی امید تھی جو دشمن قوتوں کو برداشت نہیں تھا جبکہ 2020 صاف و شفاف عوامی الیکشن کا سال ہوگا۔

بینظیر بھٹو کی 12ویں برسی کے موقع پر راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ‘اگر سیاسی یتیموں کا راج ہوگا اور عوامی راج نہیں ہوگا تو ملک نہیں چل سکتا، سیاست نہیں چل سکتی، عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکتے تو 2020 کو عوامی حکومت کا سال ہونا پڑے گا’۔

راولپنڈی کے لیاقت باغ میں 27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو نے اپنا آخری عوامی جلسہ کیا تھا جس کے بعد انہیں قتل کر دیا گیا اور آج 12 سال بعد پہلی مرتبہ یہاں پر ان کی برسی منائی گئی جہاں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف، رضاربانی، سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور اعتزاز احسن سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔
چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ ‘2020 عوامی صاف و شفاف الیکشن کا سال ہوگا، عوامی راج کا سال ہوگا، معاشی انصاف کے مطالبے کا سال ہوگا، خیبر سے کراچی تک عوام کہہ رہے ہیں کہ الوداع الوداع سیاسی یتیم الوداع، الوداع الوداع سلیکٹڈ الوداع، الودع الوداع سیاسی یتیم الوداع’۔
بلاول بھٹو کی آج کی تقریر نے ثابت کردیا کہ وہ اپنی والدہ بینظیر بھٹو شہید اور ذوالفقار علی بھٹو کے حقیقی جانشین ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘جیالو! عوامی راج پاکستان پیپلز پارٹی کے بغیر نہیں ہوسکتا، اس کے لیے میرا ساتھ دو، میرا پیغام پہنچانا، معاشی انصاف اور عوامی راج کے لیے میرا ساتھ دو، میں بھٹو شہید کا پرچم اور بی بی شہید کا پیغام لے کر نکلا ہوں’۔
بلاول کا کہنا تھا کہ ‘میں سمجھتا ہوں ہمارا ملک خطرے میں ہے، ہماری جمہوریت خطرے میں ہے، ہماری آزادی خطرے میں ہے، ہمارے غریب خطرے میں ہیں، ہماری دھرتی ہمیں پکار رہی ہے، ہمارے شہیدوں کا لہو ہمیں پکار رہا ہے ہم پر فرض ہے، ہم نے بچانا ہے، آپ نے پاکستان کو بچانا ہے’۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ‘ہم نے مل کر شہید بینظیر بھٹو کے مشن کو مکمل کرنا ہے، آپ کی محنت سے، پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی محنت سے ہم ان سلیکٹڈ اور ان سیاسی یتیموں کو گھر بھیج کر رہیں گے اور عوامی راج قائم کریں گے’۔
لیاقت میں بینظیر بھٹو کی 12ویں برسی کے سلسلے میں منعقدہ جلسے میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے اپنی تقریر کا آغاز قرآنی آیات کے ترجمے سے کیا اور کہا کہ ‘شہید زندہ ہیں انہیں مردہ مت کہو تمہیں ان کی سمجھ نہیں، اللہ تعالیٰ انہیں رزق پہنچاتے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ٹوٹے ہوئے ملک کو جوڑا اور بھٹو شہید نے 90 ہزار جنگی قیدی اور 5 ہزار میل زمین دشمنوں سے واپس لی، بھٹو نے سرزمین بے آئین کو آئین دیا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘راولپنڈی تم گواہ ہو اس ملک کو کس نے ایٹمی طاقت بنایا، کس نے مسلم امہ کو پاکستان کی قیادت میں لاہور میں جمع کیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘آپ گواہ ہیں کہ مسئلہ کشمیرپر قوم کی آواز کون بنا، کسان کو زمین بھٹو نے دی، غریب کو آواز بھٹو نے دی، ووٹ کا حق بھٹو نے دلایا، طاقت کا سرچشمہ عوام کو بھٹو نے بنایا’۔
بلاول نے کہا کہ ‘بدقسمتی سے عوامی راج ضیا کو قبول نہیں تھا، راولپنڈی تم گواہ ہو قائد عوام کے ساتھ کیا گیا، ہر گلی ہر محلہ آپ کے در و دیوار اور سرزمین گواہ ہے، آپ گواہ ہیں کہ بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘آپ گواہ ہیں محترمہ بینظیر نے عوام کے حقوق اور عوام کی آزادی کے لیے 30 سال جدوجہد کی دو آمروں سے ٹکرائیں، سلیکٹڈ حکمرانوں اور نالائق سیاست دانوں سے مقابلہ کیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘شہید بی بی نے میڈیا کو آزاد کروایا، دنیا میں پاکستان کا نام بلند کیا، شہید محترمہ بینظیر نے عوام کی امید تھی یہ دشمن قوتوں کو برداشت نہیں تھی’۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ‘ساتھیوں آج پھر یہ دھرتی پکار رہی ہے کہ میں خطرے میں ہوں اسی لیے میں آج اس تاریخی لیاقت باغ میں آیا ہوں، جمہوریت کا حال دیکھو پارلیمان پر تالا لگ چکا ہے، میڈیا آزاد نہیں، عدلیہ پر حملے ہورہے ہیں، اٹھارویں آئینی ترمیم پر حملے ہورہے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘صوبے سے ان کے حق چھینے جارہے ہیں جس سے وفاق ہل رہا ہے، دہشت گردوں کو ضرور شکست دی ہوگی لیکن انتہا پسندی کی آگ پورے ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہے، خیبر پختونخوا میں قبائلی علاقوں سے لے کر پشاور تک عوام اپنے حقوق کے لیے احتجاج کررہے ہیں’۔
حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بلاول نے کہا کہ ‘پنجاب کے دل لاہور میں ڈاکٹروں سے لے کر اسٹوڈنٹ، ٹریڈر سے لے کر کسانوں تک سارے احتجاج کررہے ہیں، سندھ کے عوام ناراض ہیں کہ گیس پیدا کرنے والے صوبے کو گیس سے محروم رکھا جا رہا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘بلوچستان کی تاریخی پسماندگی عوام کو مایوس کر رہی ہے، معیشت کا حال دیکھو عوام کا معاشی قتل ہورہا ہے، یہ حکومت عوام کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے، اس سرد موسم میں لاکھوں غریب لوگوں کے سر سے ان کی چھت چھینی جارہی ہے اس معاشی صورت حال میں بینظیر انکم سے 8 لاکھ افراد کو نکالاگیا یہ غریب دشمنی نہیں تو اور کیا ہے’۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ‘ہماری خود مختاری کا حال دیکھو این او سی کے بغیر ہمارا وزیراعظم کسی اور ملک کا دورہ نہیں کرسکتا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘اس ملک کے معاشی فیصلے اس ملک کے عوام نہیں کررہے بلکہ آئی ایم ایف کر رہا ہے، کشمیر کو دیکھو، تاریخی حملہ ہوا ہے اور اسلام آباد نے ہماری بہنوں اور بھائیوں کو لاوارث چھوڑا ہے، ہماری دھرتی پکار رہی ہے کہ میں خطرے میں ہوں’۔
بلاول نے کہا کہ ‘یہ وہ جمہوریت نہیں جس کے لیے ہم نے قربانی دی، یہ وہ معیشت نہیں جس کے لیے شہید ذوالفقار علی بھٹو نے تحریک شروع کی تھی، یہ وہ آزادی نہیں جس کا وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا، ہم پر فرض بنتا ہے، آپ پر فرض بنتا ہے کہ ہم نے بی بی کا وعدہ نبھانا ہے اور ہم نے پاکستان کو بچانا ہے، ساتھیو! ہم بی بی کا پاکستان بنا کر رہیں گے اور بھٹو کا نعرہ لگاتے رہیں گے’۔
چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ ‘میں اسی جگہ آیا ہوں جہاں بی بی کو ہم سے چھینا گیا تھا، میں اسی شہر میں آیا ہوں جہاں بھٹو کو شہید کیا گیا، راولپنڈی! آپ گواہ رہنا میں اپنے ملک کو آزادی دلاؤں گا، گواہ رہنا میں جمہوریت کو بحال کروں گا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘راولپنڈی گواہ رہنا میں اپنے ملک میں ووٹ کا تقدس دلاؤں گا، طاقت کا سرچشمہ عوام کو بنا کر رہوں گا، بھٹو شہید کی جدوجہد کو جاری رکھوں گا اور بی بی شہید کے نامکمل مشن کو مکمل کروں گا’۔
چیئرمین بلاول نے کہا کہ ‘عزت دینے والا رب کی ذات ہے اور ذلت دینے والا بھی رب کی ذات ہے، بھٹو ہے ضیا تھا، شہید بی بی ہے لیکن مشرف تھا’۔
وفاقی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘نئے پاکستان کے نام پر سیاسی یتیموں کا راج ہے، جن یتیموں سے بینظیر آپ کو خبردار کرتی تھیں آج انہی یتیموں کا راج ہے، یہ تجربہ ناکام ہوچکا ہے، آئینی بحران ہے، معیشت کا بحران ہے قیادت کا بحران ہے، بحران ہی بحران ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ان کی کس قسم کی سیاست ہے، بزدلانہ سیاست ہے، جہاں بزرگوں اور خواتین کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا جاتا ہے، ایک بیٹے کو اپنی والدہ کی برسی منانے سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے’۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ‘کوفہ کی سیاست سے مدینہ کی ریاست نہیں بن سکتی، یہ سیاسی یتیم گھبرا رہے ہیں، ان کا کٹھ پتلی راج ہل رہا ہے، سیاسی یتیم کہتے تھے کہ میاں صاحب جیل سے باہر نہیں آئے گا دیکھو وہ رہا ہوگئے، سیاسی یتیم کہتے تھے کہ زرداری باہر نہیں آئیں گے اور دیکھو زرداری باہر آیا’۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘سیاسی یتیموں سے ملک نہیں چل سکتا، ان سیاسی یتیموں سے تو حکومت نہیں چل رہی، ان سیاسی یتیموں سے معیشت نہیں چل رہی، ایک سال میں 10 لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب ہم کہتے ہیں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں تو حکومت سے یہ جواب نہیں آتا کہ ہم کوشش کررہے ہیں اور روزگار پیدا کررہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم جھوٹ بولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عوام کے پاس روزگار ہے، ہماری طرف مت دیکھو ہم اداروں کو بند کررہے ہیں’۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ‘اگر ہم کہتے ہیں کہ مہنگائی ہے لوگ تنخواہ پر گزارا نہیں کرسکتے، لوگ پنشن پر گزارہ نہیں کرسکتے ہیں تو یہ لوگ کہتے ہیں معیشت صحیح سمت پر چل رہی ہے’
آج جس طرح بلاول بھٹو نے عوام کے ٹھاٹھے مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کیا اور سیاسی یتیموں کو للکارا مجھے کوئی شک نہیں کے پاکستان کا مستقبل بلاول بھٹو جیسے نڈر، بے باک اور ایک روشن خیال نوجوان لیڈر کے ہاتھ میں جس کی قیادت میں آنے والے سالوں میں ملک دن دگنی رات چگنی ترقی کرئے گا۔۔۔
44 2 0 - 46Shares