9 - 9Shares
محترم جناب چیف جسٹس صاحب آج آپ کی ہی عدلیہ کے ایک معزز جج اور حوا کی ایک بیٹی کے ساتھ ہونے والے ایک واقع کے حوالے سے میں آپ سے انصاف کا منتظر ہوں۔یقین واثق ہے کہ آپ ہمیشہ کی طرح انصاف کا بول بالا کریں گے۔
ڈیرہ غازیخان میں تعینات سول جج ”ج“ پر ملتان کی رہائشی خاتون ”س“ کی طرف سے گینگ ریپ کا الزام مقدمہ درج ہے.آپ سے التماس ہے کہ اس واقع میں جو بھی مجرم ہو اسے قرار واقعی سزا دیں تا کہ آٸندہ کے لیے ایک مثال قایم ہو سکے۔ اگر عدلیہ کے اندر کالی بھیڑیں ہیں تو ان کی سرکوبی کریں اگر ایف آٸی آر جھوٹی ہے تو مدعیہ سمیت اس کے تمام کرداروں کو نشان عبرت بنا دیں۔ ایک حاضر سروس جج کے خلاف مقدمے کا اتنی سرعت سے اندراج اور پھر اسی تیزی سے داخل دفتر ہونا بھی ایک ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے؟ خدانخواستہ مقامی پولیس اور عدلیہ میں کوٸی کشمکش یا کچھ اور ؟ اس کی تحقیق ہونی چاہیے۔ میری اس کیس میں دلچسپی اور تجسس اس لیے بڑھا کہ مین سٹریم میڈیا نے اس واقع کو رپورٹ نہ کیا۔
اس واقع کی تفصیل کچھ اس طرح ملتان کی گلگشت کی خاتون ”س“ نے الزام لگایا ہے کہ ڈیرہ غازی خان کے ایک حاضر سروس جج نے اپنے ایک ساتھی کی مدد سے اس کے ساتھ زنا ٕ بالجبر کیا ہے۔تھانہ سول لاٸن ڈیرہ غازی خان کی ایف آٸی آر 31/21 کے مطابق جج مزکور سے اس کے گھریلو تعلقات ہیں ۔ اس نے جج ”ج“ کو اپنی بہن ”ص“ کی نوکری کے لیے دس تولہ سونا دیا لیکن جج مذکور یہ نوکری نہ دلوا سکے۔
نوکری نہ ملنے پر اس نے سونا واپسی کرنے کا مطالبہ کیا۔ بار بار کی تکرار کے بعد جج صاحب نے اسے ڈیرہ غازیخان آکر سونا لیجانے کا کہا ۔جب وہ وہاں پہنچی تو اس سے کہا گیا کہ سونا گھر میں ہے وہیں جا کر لے لینا اور زبردستی کار نمبری 158 میں بٹھا لیا کہ چل کر سونا دے دیتا ہوں اور ریسٹ ہاؤس لیجا کر نامعلوم دوست کے ہمراہ گن پوائنٹ پر زیادتی کی۔ اس نے اس واقع کی پولیس ایمرجنسی نمبر 15 پر کال بھی کی۔ تھانہ سول لاٸن کے اے ایس آٸی بیلٹ نمبر 447 ۔DG نے خاتون کے بیان کے مطابق اپنا فرض ادا کرتے ہوۓ ایف آٸی آر درج کر دی اور خاتون کے طبی معاٸنے کی روٹین کی کارواٸی کا کہا۔ مقامی صحافیوں سے گفتگو کے بعد پتہ چلا کہ ایف آٸی آر کے اندراج کے بعد جج صاحب بھی موباٸل بند کر کے غاٸب ہو گۓ۔ بعد ازاں جب خاتون سے رابطہ کیا گیا تو خاتون طبی معاٸنے سے انکاری ہو گٸی۔ اس کے بعد خاتون ایف آٸی آر میں درج اپنا موباٸل نمبر بند کر کے روپوش ہو گٸ۔میں نے بھی ایف آٸی آر میں دیے گۓ نمبر پر خاتون سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن نمبر بند ملا ۔
میں نے اسی وقت تھانہ سول لاٸنز کے ایس ایچ غزال حیدر بات کی تو انہوں نے پولیس کے روایتی رویے کی طرح ڈی پی او کےپی آر او سمیع اللہ سے بات کرنے کو کہا۔ میں نے اسرار کیا کہ آپ کے تھانے کا کیس ہے آپ ہی معلومات دے دیں لیکن بے سود۔ سمیع اللہ صاحب سےرابطہ کیا تو انہوں نے کمال شفقت سے تفصیل بتاٸی اور یہ کہ حاضر سروس جج کے خلاف اندراج مقدمہ سے پہلے تمام ایس او پیز کا خیال رکھا گیا تھا۔ یہ بھی بتایا کہ زیادتی کا شکار خاتون موباٸل نمبر بند ہونے سے پولیس سے رابطے میں نہیں ہے اس لیے طبی معاینے کی کارواٸی آگے نہ بڑھ سکی۔
میں نے پھر ڈی جی خان بار کے صدر محترم عظمت اسلام صاحب سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس بھی ایف آٸی آر کے مطابق معلومات ہیں۔ لیکن بطور ڈسٹرکٹ بار کے صدر کے ان کا کنسرن ہے اور وہ اس مسٸلے پر بار کا اجلاس بلا رہے ہیں۔
اس کیس کی تفتیشی ایک خاتون افسر تھیں ان سے باوجود کوشش کے رابطہ نہ ہو سکا۔ لیکن ای ایس آٸی مختار جس نے ایف ٸی آر درج کی تھی سے آج بات ہوٸی تو اس نے انکشاف کیا کہ خاتون نے صلح کر لی ہے اور مجسٹریٹ ندیم صاحب کے سامنے اس خاتون نے بیان بھی دے دیا ہے.
جبکہ آج ہی ایس ایچ او غزال صاحب نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی کہ خاتون کی صلح ہو چکی ہے۔
آج ڈی جی خان بار کے صدر سے دوبارہ بات ہوٸی تو انہوں نے بتایا بار کے اجلاس میں یہ واقع زیر بحث آیا اور ہم نے قانون کے مطابق کاواٸی کو ترجیع دی ۔ انہوں نے بتایا کہ کل جج صاحب کی عبوری ضمانت کی درخواست لگی ہوٸی ہے۔ البتہ وہ صلح کے واقع سے لا علم تھے۔
اس تمام تفصیل بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ 24 سے 48 گھنٹوں میں مدعیہ کی طرف سے صلح کرنے پر یہ کیس داخل دفتر کر دیا گیا۔ خاتون نے 200 روپے کے سٹام پیپر پر بیان حلفی میں واقع کو غلط فہمی قرار دے دیا۔ البتہ تسلیم کیا کہ اس نے وقوعہ کے متعلق 15 پر کال کی تھی۔ جبکہ ہماری اطلاعات کے مطابق خاتون پر کیس واپس لینے کی لیے شدید دباٶ تھا۔ اور بالاآخر وہ اس دباٶ کے سامنے ہتھیار ڈاننے پر مجبور ہو گٸی۔ چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ اس واقع کا نوٹس لیں اور جو بھی قصور وار ہو اسے سزا دیں۔ اگر قابل احترام سول جج صاحب بے گناہ ہیں یا گنہگار تو ان سے انصاف کریں۔ اگر مدعیہ کے ساتھ زیادتی ہوٸی اور اس نے دباٶ کے تحت مقدمہ واپس لیا ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور اگر اس نے کسی خاص مقصد کے لیے جج صاحب کو بدنام کرنے کے لیے غلط مقدمہ درج کروایا ہے تو اس سمیت تمام لوگوں کے خلاف کارواٸی ہونی چاہیے تا کہ آیندہ کسی عزت دار کی پگڑی نہ اچھالی جا سکے اور ایسے واقعات کا سد باب ہو سکے۔ میں نے بھی معزز جج کا نام نہیں دیا تا وقتیکہ کیس کی تحقیقات اور فیصلہ نہ ہو جاۓ۔
قارٸین اپنی راۓ کے اظہار کے لیے اس 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل یا ٹیلیگرام پر دے سکتے ہیں۔ہ
9 - 9Shares