134 16 - 150Shares
کراچی پاکستان کا معاشی دارالحکومت ہے، اور اداس اتنا کہ شاید ہی پاکستان کا کوئی اور شہر اس کیفیت میں مبتلا ہو۔ لفظ “اداسی‘‘ کوایک استعارہ کے طور استعمال کرتے ہووے، عظیم شاعر فیض نے کہا تھا : “یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا“۔ آج اس کو کراچی کے لئے عنوان کے طور پر لکتھے ہووے کرب اور دکھ کا یہ عالم ہے کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ روشنیوں کے اس عظیم شہر‘ جہاں بانی ٔ پاکستان، عظیم قائد نے آنکھ کھولی، آج ہر طرح کے مسائل کا شکار ہے۔ کچھ دن پہلے ایک سیمینار کے سلسلے میں کراچی میں قیام ہوا تو بارش کے بعد شہر کی زبوں حالی نے دل کو بہت رنجیدہ کیا۔ اربوں روپے کا محاصل دینے والا شہر بنیادی سہولتوں کو ترس رہا ہے اور اس کے سر پر بھوک، ننگ اور خوف کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ اس کی بہار بے کل، اس کا ساون ایک طوفان تباہی۔ عوا م کبھی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو کبھی اپنے حکمرانوں کی طرف، اور پھر اپنی قسمت کو کوستے ہیں، یہاں تک کہ ایک اور دن بیت جاتا ہے۔
اتنے پھیلے ہوئے شہر کے لیے نہ سرکلر ٹرین، نہ جدید انڈر گرائونڈ ریل کا کوئی انتظام۔ صحت اور صفائی کے لیے ترستے ہوئے عوام اور ننھے بچے سکول جانے کے لیے ناکارہ بسوں اور ویگنوں پر سوار ہوتے ہیں۔ کہاں وہ شہر جہاں 1980ء میں کل وقتی صحافی کے طور پر امن و امان اور خوشحالی کا دور اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کئی راتیں دوستوں کے ساتھ دیر تک سڑکوں پر بلا خوف مٹر گشت کرتے گزاریں۔ یہ پاکستان کا واحد میٹروپولیٹن شہر تھا۔ آج وہ کراچی کہاں کھو گیا جہاں معقول ٹرانسپورٹ تھی، خوشحالی کا دور دورہ تھا، ہر ایک کے لیے روزگار تھا، امن تھا‘ راتیں جاگتی تھیں اور دن کو زندگی رواں دکھائی دیتی تھی۔ یہ غریب پرور شہر ہر آنے والے کے لیے دامن دل وا رکھتا تھا۔ لوگ خالی ہاتھ آتے اور جیبیں بھر کر لے جاتے۔ اب دولت کے انبار تو ہیں مگر محض چند ہاتھوں میں۔ اب یہ ارتکاز انکار کے پیرائے میں ڈھل چکا، میزبانی کے معانی بدل گئے، سیاست نے سماج کو نگل لیا۔
مسائل پاکستان میں ہر جگہ موجود ہیں لیکن اس معاشی شہ رگ میں کیوں؟ اس شہر میں لاکھوں انسان سطح غربت سے نیچے رہ رہے ہیں۔ غلاظت‘ اور غلاظت کے انبار، گندگی اور گندگی کے پہاڑ، جرائم اور جرائم کی نہ کوئی حد نہ شمار، یہ سب آج کے کراچی کا اصل چہرہ ہے، اور پھر اس کے وسائل نوچنے کے لیے اس پر ہر طرح کے مافیا کا راج، ریاستی مافیا، سیاسی مافیا، نجی غنڈوں کا مافیا۔ شہر کی اداسی ہمہ جہت ہے۔ یہ سیاسی، سماجی اور معاشی تو ہے ہی، نفسیاتی بھی ہے۔ لوگ ہمت ہار چکے ہیں، اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ مزاحمت کے لفظ سے بھی ناآشنا ہیں۔ ایک تقریب میں لاکھوں کا خرچہ کھانے پر دیکھا تو دوسری طرف ایک گھر میں برساتی پانی کے آ جانے سے دو دن تک کھانے کا ایک دانہ بھی نہ تھا۔ ہر طرف بھوک کا خوف تھا۔ دیہاڑی دار پریشان تھے کہ اگر مزید کچھ دن تک بارش جاری رہی تو کام کہاں ملے گا؟ وزیر اعلیٰ محترم نے فرمایا۔۔۔ ”مجھے لوگوں کے درد کا احساس ہے‘‘- کاش درد مند دل کا احساس شہر کے درد کو دور کرنے میں عملاً بھی فعال دکھائی دے۔ حالیہ بارشوں کے بعد بہت سے پوش علاقوں میں بھی گھٹنوں تک پانی کھڑا تھا۔ نکاسیء آب کے نظام کا فقدان، کوڑے کرکٹ اور کچرے کے ڈھیر دیکھ کر احساس ہوا کہ یہ شہر اداس، ”لاوارث‘‘ بھی ہے۔ اگرچہ وزیر اعلیٰ سندھ نے جگہ جگہ دورے کیے اور شہر کی سڑکوں سے پانی نکالنے کی ہدایات
جاری کیں مگر یہ کام محض نصیحت اور ہدایت سے نہیں ہو سکتا۔ نکاسیِ آب کے لیے جو کام کیے جانے تھے، وہ تو کبھی ہوئے نہیں۔ لوگوں کو ایک معقول ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کام کیا نہیں کیا گیا اور آج تک وفاق اور صوبہ کی حکومتیں محض وعدے اور بہانے بنا کر عوام کو امید کا دامن تھامنے کا سبق دے رہی ہیں ۔
ماضی میں خون خرابہ، سیاسی کشیدگی، قتل و غارت، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، دہشت گردی، سٹریٹ کرائمز، کس کس بات کا تذکرہ کیا جائے۔ کیا اب سب اچھا ہے؟ حکمران تو یہ ہی فرماتے ہیں –
اس اداس شہر، جسے شہر قائد بھی کہا جاتا ہے، کو کون ساگھائو نہیں لگا، کون سا بار ہے جو اس کے شانوں پر نہیں لادا گیا، کون سی اذیت ہے جو اسے نہیں پہنچائی گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی میں امن و امان کی صورت حال خاصی حد تک بہتر ہوئی اور اس کا سہرا بھی فوج کے سر پر رہا- یہ بات ہر مکتبہ فکر کے ہونٹوں پر ہے کہ سیاسی جماعتوں نے تو امن خراب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور اب بھی ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں، بلکہ ایک نام نہاد اتحاد کے پرچم تلے کچھ سیاستدان قومی ادروں پر بھی بلاجواز الزامات لگا رہے ہیں. رینجرز کے بغیر”قیام امن‘‘ کو کس طرح مستقل کیفیت میں بدلا جائے؟ یہ سوال اب بھی سب کی زبان پر ہے اور دوسری طرف کورونا وبا کی دوسری قاتل لہر ایک بار پھر ہر طرف مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہے –
معاشی ترقی بذریعہ نئی صنعتوں کے قیام اور پرانی کی بحالی… روزگار کے نئے مواقع… ٹرانسپورٹ ،بجلی اور پانی کی سہولیات اور سب سے ضروری، سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے محصولات کے نظام کو منصفانہ اور سادہ بنایا جاے۔ سب کا اصرار ہے کہ حکومت کو معاشی بحالی اور ترقی پر زور دینا چاہیے۔ معاشی ترقی کا ثمر محصولات میں اضافے کی صورت ہو گا۔ کاش ہماری حکومتیں ٹیکس کی بجائے مزید ترقی کی طرف توجہ دیں کیونکہ اس کے نتیجے میں ہی محصولات بڑھیں گی‘ لوگوں کو روزگار ملے گا اور معاشی بدحالی ختم ہوگی۔
کچھ سال پہلے تک بدامنی اور بھتہ خوری کی وجہ سے سرمایہ کار اس شہر کا رخ کرنے سے کتراتے تھے، لیکن اب اُن کا اعتماد کسی حد تک بحال ہوا ہے ۔ امن و امان کی بحالی کا اصل ثمرسرمایہ کاری کی اب بھی کمی ہے جس میں کورونا کی وبا کے علاوہ ناقض نظام حکومت اور ہر طرف بدعنوانی کا راج ہے ۔
امن و امان کے مسئلے کی ایک بنیادی وجہ معاشی ناہمواری اور غربت بھی ہے۔ وہ نوجوان‘ جو تعلیم یافتہ اور بے روزگار ہیں‘ جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جو زیادہ تر پولیس کی پشت پناہی میں کام کرتے ہیں- منظم جرائم کی دنیا میں معاشی مجبوری کے عمل کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کراچی میں لوگوں کی اکثریت معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ اس شہر کی اداسی میں اس پہلو کی اہمیت کو ہی زیر بحث لایا جاتا ہے ۔ اگر ہم امن و امان کے مسئلے کا حل‘ دہشت گردی کا خاتمہ اور عوام کو درپیش دیگر مسائل کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہر حال میں نظام محصولات کو درست کرکے عوام سے اکٹھے کیے گئے اربوں روپوں کو ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا ہو گا۔ بندوق اور گولی سے مستقل اداسی اور محرومی کا علاج ممکن نہیں۔
کراچی اور تمام بڑے شہروں میں مقامی حکومتوں کا نظام، جو لوگوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرے اور اپنے زیرانتظام کمیونٹی پولیس کے نظام کے ذریعے امن و امان کا قیام ممکن بنائے، لائے بغیر موجودہ صورت حال میں مستقل بہتری ممکن نہیں۔ کراچی شہر پر چھائی “اداسی” ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ حکمرانوں کو اب مزید وقت ضائع کیے بغیر معاشی ناہمواریوں کو دور کرنا چاہیے۔ معاشی ترقی کا حصول بھی تبھی ممکن ہے جب ہم سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلیں، اور اُنہیں نہ صرف روزگار فراہم کریں بلکہ اُن کے کام کا جائز معاوضہ بھی یقینی بنائیں۔ معاشی ناانصافی مسائل کی اصل جڑ ہے اور جرائم کا جواز۔ اسے ختم کرنا ہو گا۔ امید ہے کہ سیاسی قیادت تمام تر اختلافات کے باوجود کراچی کو پاکستان کا ایک مثالی عالمی شہر بنانے کا عزم اور آغاز کرے گی۔
134 16 - 150Shares