146 - 146Shares
ہماری دادی کو 25 سال پہلے کینسر تشخیص ہو گیا۔ مولانا صاحب کہنے لگے
اچھا! پھر؟میں بولا
آپ کے والد نے دیکھ کر میو ہسپتال کے ایک بڑے ڈاکٹر کو دکھانے کا مشورہ دیا، چنانچہ ہم ان کے پاس پہنچ گئے۔ وہ کہنے لگے
اچھا! میں اور غور سے سننے لگا
انہوں نے گھر آ کر دیکھنے میں کافی نخرہ دکھایا۔ بادل ناخواستہ آئے، اور دادی جان کو دیکھ کر ہم لوگوں پر ناراض ہونے لگے۔ کہنے لگ انہیں پرانا کینسر ہے۔ اب دکھا رہے ہو؟ یہ تو مشکل سے 3 ماہ نکالیں گی۔ میں ان کا علاج کیا کروں؟ دیر کر دی ہے۔ ہم سب کو برا لگا، چنانچہ ان کو دوبارہ تکلیف دینا تو دور، ان کی دی ہوئی دوا بھی استعمال نہیں کی۔
مولانا سے میری اکثر ملاقات جمعہ کو ہوتی۔ والد صاحب کے پرانے دوست تھے، اور اکثر ملاقات میں ان کی باتیں بتاتے۔ میں بھی شوق سے سنتا کیونکہ کچھ نا کچھ نصیحت ہوتی۔ مگر آج کی اس گفتگو کو معانی پہنانامشکل ہو رہا تھا۔
لیکن ایسا تو اکثر ہوتا ہے کینسر کے مریضوں میں۔ پھر دوا دینا یا نہ دینا لواحقین کی مرضی ہے۔ اس واقعے میں کیا سبق ہے؟ میں نے پوچھا۔
بھئی اگر بری خبر ایسے انداز میں بتائے کہ دل آزاری نہ ہو تو بہتر ہے، ورنہ تو اچھی بات بھی ایسے کہی جا سکتی ہے جس سے مسائل پیدا ہو جائیں۔ زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے، پھر وہ کون تھے انہیں 3ماہ دینے والے؟ اب تمہیں بتاوٗں کہ دادی کا انتقال اس گفتگو کے 15 برس بعد ہوا، جبکہ ڈاکٹر صاحب کا دو ماہ بعد انتقال ہو گیا تھا!! جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے!!
مجھے ایک پرانا واقعہ یاد آرہا تھا کسی بادشاہ کے حکم پر اس کے وزیر نے سب سے اچھی اور سب سے بری چیز پکانے کی فرمائش پر دونوں بار زبان اور دل پکایا تھا۔ سچ ہے، تلوار کا زخم بھر جاتا ہے، زبان کا نہیں!!
146 - 146Shares