4 - 4Shares
کچھ نقادوں کی رائے میں نواز شریف صاحب کو برطانیہ نہیں جانا چاہئے تھا بلکہ انہیں اپنی سیاسی جنگ یہاں لڑنی چاہئے تھی نقاد کہتے ہیں کہ نواز شریف کو واپس آکر پاکستان کے اندر سیاسی جنگ لڑنی چاہئے لیکن میرے خیال میں اگر نواز شریف صاحب انگلینڈ نہ جاتے تو یہاں جیل میں ہی رہتے- اور وہ اگریہاں ہوتے تو انہیں یہ سب کچھ کہنے کا موقع نہیں ملتا تھا جو وہ ابھی کہہ رہے ہیں۔
درحقیقت نواز شریف نے عوام میں ایک نئی قسم کا شعور پیدا کرکے سیاست کے بارے میں پاکستانیوں کی تفہیم کو اب ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ ان کے سیاسی موقف نے پاکستانی عوام کو حیران کردیا ہے۔ وہ جو کہہ رہے اس سے پہلے ان جیسے کسی قدآور رہنما نے ایسا نہیں کہا۔ یقینا کچھ لوگ نواز شریف صاحب کے موجودہ سیاسی موقف سے متفق نہیں ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرون ملک رہ کر نواز شریف صاحب سیاسی طور پر زیادہ موثر ہیں اور لوگوں کی رائے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں خاص طور پر نئی ٹیکنالوجیز اور فوری مواصلات کے اس دور میں- نواز شریف کی پارٹی برقرار ہے- ان کی صاحبزادی مریم نواز ایک مقبول اور لائق رہنما بن چکی ہیں جو ایک موثر اسپیکر اور بھیڑ کھینچی ہیں- مریم نواز کامیابی کے ساتھ اپنے والد کا پیغام بھی لوگوں تک پہنچا رہی ہیں۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے برعکس نواز شریف صاحب نے ہمیشہ اپنے لئے ایک اور موقع پیدا کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جدید چین کے بانی چیئرمین ماؤ زے تنگ کے پرستار تھے لیکن چیئرمین ماؤ کی دو قدم آگے ایک قدم پیچھے والی حکمت عملی پر عمل نواز شریف صاحب نے کیا ہے۔ وہ چی گویرا نہیں لیکن فیڈل کاسترو بن سکتے ہیں اگرچہ کاسترو کوئی سرمایہ دار یا تاجر نہیں تھا۔
کاش ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ایک مختلف حکمت عملی اپنائی ہوتی- کاش بھٹو صاحب عارضی طور پر ملک چھوڑ جاتے اور جلاوطنی میں رہ کر قوم کی خدمت کرتے۔ اگر بھٹو صاحب مزید 10 ، 20 سال تک زندہ رہتے تو پاکستان اس بحران کا شکار نہ ہوتا جس میں اب ہم سب ہیں۔
ہم بھٹو صاحب کو بطور شہید یاد کرتے ہیں ، وہ ہمیشہ عظیم رہیں گے اور تاریخ میں زندہ رہیں گے لیکن ان کے غیر فطری جسمانی خاتمے نے ایک سیاسی خلا پیدا کردیا۔ ان کے عدالتی قتل نے معاشرے میں بے مثال افسردگی اور ناامیدی پیدا کردی۔ جنرل ضیاء کو ایک طویل عرصے تک کسی چلانجر کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بھٹو کی موت نے جنرل ضیاء الحق کو عدم استحکام کے ساتھ نفرت ، تفریق ، الجھنوں اور جہالت کو پھیلانے کا موقع فراہم کیا۔ اس نے پاکستان کے سیاسی اور معاشرتی فائبر کو تباہ کردیا۔
کسی مقصد کے لئے ، خاص طور پر لوگوں اور اصولوں کے لئے اپنی جان دینا سب سے بڑی قربانی ہے لیکن بعض اوقات آپ تھوڑا سا طویل عرصہ تک زندہ رہ کر معنی خیز تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ہرمزاحمتی تحریک کے لئے قائدانہ صلاحیتیں ، ایک واضح سیاسی وژن اور مشن، بصیرت اور حوصلہ مند رہنما کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنی ہمت کو حکمت عملی کے ساتھ استعمال کرسکے۔ جب آپ امید کی علامت اور تبدیلی کے ایجنٹ ہوتے ہیں تو آپ کے زندہ رہنے کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے تاکہ آپ جدوجہد کی رہنمائی کرسکیں۔ قائد کی زندگی سب سے اہم ہوتی ہے کیونکہ وہ ایک مقصد کے لئے جدوجہد کے پیچھے متحرک ذہن ہوتا ہے۔ لیڈر کو جدوجہد کے دوران دنیا سے غائب نہیں ہونا چاہئے اسے اس وقت تک قیادت نہیں چھوڑنی چاہئے جب تک کہ اس کا مشن پورا نہ ہو جا ئے, یا متبادل قیادت دستیاب نہ ہوجا ئے- ایک حقیقی رہنما اپنی زندگی میں نئی قیادت کی تیاری اور تربیت کرتا ہے-
اسی طرح حقیقی رہنما جذباتی فیصلے نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی گھبرانے والے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں- لیڈر کو آسانی سے ہار قبول نہیں کرنی چاہئے البتہ اسے حالات کے مطابق جدوجہد کے طریقوں اور ذرائع کو تبدیل کرنا یا ایڈجسٹ کرنا چاہئے-
4 - 4Shares