145 5 - 150Shares
ریاست’ محصولات’ استحصال اور اشرافیہ
ڈاکٹر اکرام الحق
کالم بعنوان ‘نظام محصولات، سماجی انصاف اور معاشی ترقی’ میں اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ آنے والے “چند ہفتوں کی تحریروں میں ایک فلاحی ریاست کے لئے منصفانہ نظامِ محصولات کی مبادیات اور جزوئیات پر تفصیلاً روشنی ڈالیں گے”- یہ اس کی دوسری قسط ہے.
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 3 کے مطابق۔۔۔”ریاست ہر قسم کے استحصالکا خاتمہ یقینی بنائے گی اور ہر شخص کی صلاحیت اور کام کی نوعیت کے مطابق بنیادی اصولوں کی تکمیل کو مرحلہ وار مکمل کرے گی۔‘‘
1973ء سے لے کر آج تک، پاکستانی ریاست اس وعدے کی تکمیل میں ناکام رہی ہے۔ فوجی اور سول حکمرانوں کی طرف سے جو معاشی پالیسیاں بنائی گئیں، ان سے عوام کی بجائے بیوروکریسی، جاگیرداروں،صنعت کاروں اور سیاست دانوںکے محدود گروہ کو فائدہ ہوا۔ اس پاک سرزمین نے انتہائی استحصالی طبقات کی پرورش کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکس دہندگان کی رقوم پر پلنے والا طبقہ سیاسی اورمعاشی طور پر مضبوط ہوتا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ 1990ء میں عدالت کی جانب سے زرعی اصلاحات کو ”غیر ا سلامی‘‘ قرار دے دیا گیا۔ آج تک پاکستان کے اشرافیہ طبقے کی طرف سے عوام کا معاشی استحصال، جبر اور حق تلفی کا سلسلہ جاری ہے اور صبح سے شام تک محنت کرنے والے شہری باعزت زندگی کے حق سے محروم ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں کے معیار ِ زندگی میں فرق کی لکیر گہری ہوتی جارہی ہے۔
کارل مارکس کے اس نظریہ کہ ” ہر کسی سے اس کی صلاحیت کے مطابق کام لو اور ہر کسی کو اس کی ضرورت کے مطابق دو‘‘ کا ایک حوالہ اول اول ہمیں ”عہدنامہ جدید‘‘ میں ملتا ہے کہ ”اہل ایمان اپنے مال کو بانٹ لیتے ہیں” :4:32-35۔ اس طرح کے احکامات قرآن حکیم میں جا بجا موجود ہیں- یہ جملہ علی الاعلان کہتا ہے کہ ایک مثالی صورت ِ حا ل یہ ہے کہ ہر کوئی اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق معاشرے کی ترقی میں اپنا
کردار ادا کرے اور معاشرہ اس کی ضروریات کے مطابق اُسے وسائل فراہم کرے۔ اس مارکسی تصور کو اسلامی سوشلزم کے نظریے میں ڈھالتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی سیاسی دور میں وعدہ کیا تھا (افسوس بعد میں وہ جاگیردار طبقے کے مفاد کے امین بن گئے) کہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری کی جائیں گی۔ درحقیقت بھٹوصاحب کے پیش نظر سابقہ سوویت یونین کا معاشی تجربہ تھا جہاں حکمران جماعت، کمیونسٹ پارٹی نے مارکس کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا تھا اوراُس نظام میں ہر کوئی معاشرے کے لیے خدمات سرانجام دیتا تھا۔ روس میں تو کچھ کامیابی ہوئی لیکن ہمارے ہاں اسلامی سوشلزم کا انجام سب کے سامنے ہے۔
یقینا کارل مارکس کے ذہن میں کچھ مخصوص حالات تھے کہ ایک ایسا معاشرہ ہو جہاں سماجی تنظیم اور ٹیکنالوجی جسمانی محنت کی ضرورت کا خاتمہ کردے اور جہاں محنت جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے نہیں بلکہ اہم ترین سماجی خدمات کا درجہ اختیار کرجائے۔اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے مارکس نے کہا تھا کہ ایسے سماج میں ہر شخص کے دل میں جذبہ ہوگا کہ وہ معاشرے کی بہتری کے کام کرے۔ چاہے کوئی سماجی ڈھانچہ اُسے مجبور نہ بھی کرے‘ اُسے دوسروں کے لیے کام کرنے میں خوشی ہوگی۔ مارکس چاہتا تھا کہ اس نعرے کا ابتدائی حصہ۔۔۔”ہر کسیسے اُس کی صلاحیت کے مطابق کام لو‘‘ اس طرح سمجھا جائے کہ کسی شخص سے نہ صرف اُس کی بہترین صلاحیت کے مطابق کام لیا جائے بلکہ یہ بھی کہ ایک شخص اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کی بہتری کے لیے بہترین حد تک ترقی دے۔ اسی سے انفرادی اور اجتماعی ترقی کی راہ نکل سکتی تھی۔
میرے بہت سے طلبہ پوچھتے ہیں کہ کیا آئین کی بالا دستی کے ذریعے بتدریج ہر قسم کے استحصالکا خاتمہ ہوسکتا ہے؟ بہت سوں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی جائے کہ وہ سماجی اور معاشی استحصالکے خاتمے کو یقینی بنائے، تاہم بہت سے حقیقت پسند سوچتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی ایک دل خوش کن التباس ہے اور یہ کہ عدالت تو قیمتوں میں اضافے کے خلاف اپنے فیصلے کو نافذ کرانے میں بھی ناکام رہی تھی۔ یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان کے اصل حکمران سرکاری افسران ، سرمایہ دار اور جاگیر دار ہیں اور یہ لوگ سیاست میں آکر عوام کا خون نچوڑتے ہیں ، اس لیے ان سے کسی بہتری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
مراعات یافتہ طبقات موجودہ استحصالی نظام کا تحفظ کرتے ہیں- اور کچھ ادارے بھی اسی طاقت ور طبقے کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ قزلباش وقف کیس، جس میں چیف لینڈ کمشنر پنجاب اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا، میں جنرل ضیا کی بنائی گئی شریعت کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا تھا کہ زرعی اصلاحات کا قانون قرآن و سنت کے منافی ہے۔ مزدور پارٹی، قومی پارٹی، کسان کمیٹی اور دیگر تنظیموں کی طرف سے دائر شدہ نظر ثانی کی اپیل کی سماعت نو ارکان پر مشتمل بنچ نے کی لیکن اس کا آج تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اُس وقت پی ایم ایل (ن) کی حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے نظر ِ ثانی کی اپیل کی مخالفت کی تھی۔ زمینداروں کی تنظیم کے سربراہ شاہ محمود قریشی اور موجودہ وزیر خارجہ نے ایک مہنگے وکیل ، جو 1973ء کے آئین کے خالق ہونے کے دعویدار رہے ہیں، کی خدمات حاصل کیں تاکہ زرعی اصلاحات کے قانون کو ہر صورت میں روکا جاسکے۔اس ملک میں غریب عوام کے ساتھ مذہب اور سیاست کے نام پر جوکچھ ہوتا رہا‘ وہی ایک حقیقت ہے، باقی سب افسانے ہیں۔
کچھ ناقدین کے مطابق ترقی پسند قوتوں کا خیال تھا کہ قزلباش کیس کی نظر ثانی کی اپیل پر شریعت کورٹ کے فیصلے کو تبدیل کردیا جائے گا۔ 23 نومبر2013ء کو وہ کیس سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سامنے پیش کیا گیا۔ بہت سے سادہ لوح کسی انقلابی فیصلے کی توقع کررہے تھے کہ بے زمین ہاریوں کی سنی جائے گی‘ لیکن پاکستان کے ترقی پسند مارکس کا یہ مقولہ بھول گئے تھے: ”عدلیہ سمیت تما م ریاستی ڈھانچہ صرف حکمران طبقے کے مفاد کا تحفظ کرتا ہے‘‘۔ درحقیقت عدلیہ نجی ملکیت کا ہی تو تحفظ کرتی ہے– یہ بہرحال کوئی انقلابی ادارہ نہیں- تمام ادارے اسی سماجی اور معاشی نظام کی پیداوار ہیں—بہرحال قزلباش کیس کا فیصلہ مناسب نہ تھا کیونکہ اس نے زرعی اصلاحات کے نظام کو ختم کردیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی انقلابی سیاسی جماعت ہی آئین کے آرٹیکل 3 کے نفاذ کی طرف ہی جاسکتی ہے، موجودہ ادارے اور تمام سیاسی جماتیں ایسا کرنے کے تیار نہیں ہیں ۔
جمود کو ختم کرنے کے ترقی پسند جماعتوں کو اکٹھا ہونا پڑے گا تاکہ وہ بے بنیاد سیاسی نعروں اور انواع و اقسام کے ”انقلابوں‘‘ کی بجائے معاشی اصلاح لانے کی کوشش کریں۔ اس کام کے لیے عوام کے مینڈیٹ کی ضرورت ہے اور عوام کا مینڈیٹ اس جمہوری نظام میں صرف روایتی جماعتوں کو ہی ملتا ہے۔ موجودہ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے نعرے لگانے کے باوجود جمہوری نظام کے ساتھ مخلص نہیں۔ یہ صرف استحصالی نظام کے محافظ ہیں۔ جس دوران یہ آپس میں کھینچا تانی میں مصروف ہیں، غریب عوام بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکس ادا کرتے کرتے کنگال ہوچکے ہیں۔ جاگیردار، سرمایہ دار اور دیگر طاقتور اشرفیہ کے افراد انکم ٹیکس اور دیگر واجبات اداکرنے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف حکمران اور افسران ٹیکس دہندگان کے رقم پر پر تعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔وسیع وعریض فرسودہ حکومتی نظام ملکی دولت لوٹنے یا برباد کرنے میں مصروف ہے۔ دراصل اس وقت ہمیں ایک اور سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ ایسی جماعت جیسی کہ باربری پارٹی پاکستان اور دیگرہم خیال جماتوں کا اتحاد سامنے آسکے جو موجودہ محض کھوکھلے نعروں کی بجائے آئین کے آرٹیکل ٣ کے نفاذ کا پکا وعدہ اور اقتدار میں انے کے بعد اس کا عملی نفاذ بھی کرے۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا تمام درد دل رکھنے والے پاکستانیوں کو آرٹیکل ٣ کے نفاذ کے مطالبے سے دستبردارنہیں ہوناچاہیے– قومی اور وفاقی حکومتوں کے علاوہ عدالت عظمیٰ کی توجہ اس طرف مبذول کرواتے رہناچاہئے-
انتباہ
اس تحریر میں تجزیہ کار/کالم نگار نے جو باتیں لکھی ہیں وہ مکمل طور پر ان کی ذاتی رائے ہے۔سرخیاں کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
145 5 - 150Shares