29 2 - 31Shares
شفیق اعوانسرگوشیاں
خصوصی عدالت کی طرف سے سابق صدر جنرل (ر) مشرف کو سزائے موت کے فیصلے کے آفٹر شاکس ابھی تک سامنے آ رہے ہیں اور لگتا ہے کہ ماضی کی طرح عدلیہ اور ایگزیکٹو ایک بار پھر آمنے سامنےہوں گے۔
سابق چیف جسٹس أصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس میں اٹارنی جنرل نے شرکت نہ کی البتہ ان کی چیف جسٹس اور عدلیہ کے خلاف بغض سے بھرپور تقریر اس تقریب میں پڑھی گٸی۔ بہتر ہوتا وہ خود آکر یہ تقریر کرتے اور جوابی تقریر سنتے لیکن اس سب کے لیے اخلاقی جرات درکار تھی جو ان میں عنقا تھی۔
اٹارنی جنرل کی تقریر اور وزراء کی عدلیہ پر بلا جواز تنقید اور تابڑ توڑ حملوں سے لگتا ہے کہ حکومت عدلیہ کے خلاف لمبی اننگ کھیلنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت کی طرف سے جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف ریفرنس فاٸل کرنا بھی اس سلسلٕے کی کڑی ہے۔ گو کہ سینئر وکلا اسے غیر ضروری قرار دے دیا ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے اداروں میں بڑھتی ہوئی تلخی کم ہو گی۔ خطرناک بات یہ ہے کہ حکومت اس لڑائی می ایک ادارے کی حمایت کا تاثر دے رہی ہے جو کہ اس ادارے سمیت کسی کے حق میں نہیں۔
دوسری طرف ماضی کی طرح ابھی تک عدلیہ کی طرف سے حکومتی گولہ باری کا جواب نہیں دیا گیا بلکہ چیف جسٹس نے فل کورٹ ریفرنس میں بھی اس حوالے سے اختلافی بات نہ کی اور محض حکومتی رویے کا گلا کر کے آگے بڑھ گٸے۔انہوں نے حکومتی وزراء کے بیانات اور فوج کی طرف سے احتیار کیا گیاسخت لہجہ نہ اپنا کر بھی مثبت پیغام دیا۔
فل کورٹ ریفرنس میں بار کونسل کے نماٸندوں نے بھی حکومتی اقدامات پر بھرپور تنقید کی اور ججز کا دفاع کیا۔ اس سے قبل بار کونسل نے ڈی جی آٸی ایس پی آر کی فیصلے پر فوج کے ردعمل کی بھی مزمت کی جس سے ظاہر ہے کہ وکلا بھی نٸی صف آراٸی کر رہے ہیں۔بار کی اس پریس ریلیز کا انداز بیان بہت سخت تھا۔ لیکن فوج کا ردعمل بھی غیر ضروری تھا اور ادارے کو اپنے ایک ریٹایرڈ افسر کے خلاف عدلیہ کے فیصلے دفاع کے لیے بطور ادارہ اس طرح سامنے أنا قطعاً مناسب نہیں تھا۔
یقیناً بارز ہی عدلیہ کی طاقت ہیں اور ماضی میں بھی دیکھا ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری اور عدلیہ بحالی تحریک میں بھی وکلاء نے بھرپور کردار ادا کیا۔ بارز اور عدلیہ لازم و ملزوم ہںں اور ہر جج نے ریٹائرڈ کے بعد اپنی برادری میں جانا ہوتا ہے۔ پنجاب انسٹیوٹیٹ آف کارڈیالوجی حملہ کیس اس نٸی صورتحال میں پیچھے چلا گیا ہے اور اس میں گرفتار اکثر وکلاء کی ضمانت بھی ہو چکی ہے جس میں وزیر اعظم کے بھانجے حسان نیازی کی ضمانت بھی شامل ہے۔ عدلیہ نےخود اس مسٸلے کے حل کے لییے کمیٹی بنا دی ہے جس سے ”مثبت“ نتائج کی توقع ہے۔ لیکن اس سارے معاملے میں جو مریض جان سے گٸے ان کا کوٸی پرسان حال نہیں۔
اگر عدالتی فیصلہ پڑھیں تو عددالت نے مشرف کو آئین توڑنے پر غدار کہا نہ کہ وطن سے غداری کا الزام لگایا۔ لیکن مشرف کے حمایتی بشمول فوج اسے اور رنگ دے رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔ سابق صدر جنرل مشرف کی ملک سے وفاداری مصمم اور شک سے بالا تر ہے۔ ان کی وطن عزیز کے لیےخدمات سے بھی کوٸی انکاری نہیں اور یقیناً وہ ایک بہادر افسر ہیں۔ لیکن آٸین کے أرٹیکل 6 کے مجرم ٹھہراے جانے کی وجہ سے وہ اس سزا کے حقدار ٹھرے۔ جب تک یہ آرٹیکل آٸین کا حصہ ہے اس جرم کی یہی سزا رہے گی تاوقتیکہ یہ تبدیل نہیں ہو جاتا۔
حکومتی اقدامات سے لگتا ہے کہ وہ مشرف کی سزا کے فیصلے کو فوج اور عدلیہ کی لڑائی بنانے کے درپے ہے جس کا غالباً ایک مقصد دیگر مساٸل سے عوام اور اپوزیشن کی توجہ ہٹانا ہو سکتا ہے۔ حکومتیں ہمیشہ اس قسم کی محاذ آراٸی کی مخالف رہی ہیں لیکن موجودہ حکومت یہاں آگ کو ہوا دےرہی ہے۔ اور اس لڑاٸی سے سیاسی فاٸدہ اٹھانا چاہتی ہے جو کہ افسوسناک ہے۔ اگر بارز بھی صف اراء ہوگٸیں تو ایک نٸی محاذ آراٸی جنم لے گی جو کہ کسی صورت بھی خوش آٸند نہیں۔ حکومت کی طرف سے عدلیہ پر مسلسل چڑہاٸی اور تنقید سے لگتا ہے یہ معاملہ خرابی کی طرف بڑھ سکتا ہے جس میں فوج جیسا ادارہ بھی تنقیدکا نشانہ بن سکتا ہے ۔ یہ ایک افسوسناک امر ہو گا بار نے اپنی پریس ریلیز میں اس کا آغاز بھی کر دیا ہے۔
مسلم لیگ نواز کی خاموشی بھی پراسرار ہے ۔ایک طرف ہر اپوزیشن جماعت سابق صدر مشرف کو عدلیہ کی طرف سے سزا پر اس فیصلے کی حمایت کر رہی ہے لیکن مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف مکمل خاموشی شکوک شبہات پیدا کر رہی ہے۔ مسلم لیگ نواز ہی نے مشرف کے خلاف أٹیکل 6 کی کارواٸی کا آغاز کیا تھا لیکن اب مرکزی لیڈرشپ کی اس پر خاموشی مخالفین کی طر ف سے ڈیل کی باتوں میں وزن لگ رہا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں خصوصی طور پر یپلز پارٹی کا اس فیصلے پر موقف سب سے واضع اور سخت تھا۔ بلاول بھی کچھ زیادہ ہی بول گۓ جس سے اسٹیبلشمنٹ شدید ناراض ہے اور آثار بتا رہے ہیں کہ اگلی گرفتاری بلاول کی بھی ہوسکتی ہے.اس سے تلخی مزید بڑھے گی۔
انتباہ
اس تحریر میں تجزیہ کار/کالم نگار نے جو باتیں لکھی ہیں وہ مکمل طور پر ان کی ذاتی رائے ہے۔سرخیاں کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
29 2 - 31Shares