17 - 17Shares
۔سرگوشیاں
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی قومی اسمبلی میں جامع لیکن مدلل تقریر قابل دید تھی اور اس پر سپیکر اسد قیصر کی خجالت اور بے بسی بھی واضع تھی۔ عباسی صاحب کی تقریر میں اٹھاے گۓ نقات پر جواب تو ایک طرف سپیکر صاحب شرمندگی سے بھی عاری تھے ۔ جب عباسی صأحب نے سپیکر کو لکھے گۓ خطوط اور ان پر ان کے جوابات کا ذکر کیا تو سپیکر کا سپاٹ چہرہ اس بات کی چغلی کھا رہا تھا کہ ان خطوط کے جوابات انہوں نے پڑھے ہی نہیں اور ان کی ”ایما“ پر بھجوا دیے گۓ ۔ جس سے لگتا ہے کہ ان کے اختیارات اور ”مہر“ کوٸی نادیدہ ہاتھ استعمال کر رہا ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ جب جب اپوزیشن اراکین اس معزز ہاوس کے ممبران سابق صدر أصف علی زرداری ، سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ۔ سابق وزیر قانون رانا ثنااللہ۔سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کے اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے ان کے أٸینی حق پروڈکشن أرڈر کا مطالبہ کر تے ہیں تو سپیکر و ڈپٹی قومی اسمبلی کے چہرے پر تمسخر ، رعونت اور تکبر کی لکیریں گہری اور واضع ہو جاتی ہیں۔ میرا تجربہ ہے جو کچھ أج پی ٹی أٸی کی حکومت اور سپیکر جو کچھ اپوزیشن کے ساتھ کر رہے ہیں کل وہی کچھ پی ٹی أٸی کے ساتھ ہو گا۔ اپوزیشن تو ایک پراسیس سے أٸی ہے اور جمہوری جدوجہد میں جیلیں دیکھیں ۔کوڑے کھاے ۔پھانسی کے پھندے کو گلے سے لگایا ۔شہادتوں کوسینے سے لگایا اور مارشل لإ کی سختیاں بھی برداشت کیں اسی لییے وہ اس دور سے بھی گزر جایں گے۔ لیکن اس دشت میں نووارد پی ٹی أٸ وقت أنے پر شاید اف بھی نہ کر سکیں۔ لیکن یہ سب ہو کر رہے گا یہ ازل سے ہے کہ انسان جو بوتا ہے وہی ایک دن کاٹنا پڑتا ہے۔
اگر سپیکر اور پی ٹی أٸی کے اراکین میں اس رعونت، طوفان بدتمیزی اور تکبر کی کھوج لگایں تو اس کا منبع ان کے لیڈر عمران خان کی ذات ہے جنہوں نے سیاست میں یہ نٸے اسلوب متعارف کرواے۔ اب یہ رویہ معاشرے میں سرایت کرتا جا رہا ہے اور لاہور میں ایک ہسپتال پر وکلا ٕ کا حملہ بھی اسی سوچ کا تسلسل ہے۔
پارلیمانی نظام میں سپیکر فادر أف دی ہاوس ہوتا ہے اور اس کی نظرمیں تمام بچے برابر ہوتے ہیں لیکن اس دنیا میں ایسے بھی باپ ہیں جو بچوں میں بھی فرق رکھتے ہیں۔ مجھے سپیکر کے اپوزیشن کے ساتھ رویے پر “Vicky donor” کا کردار یاد أجاتا ہے جو کٸی بچوں کا باپ ہوتے ہوے بھی ان کا صلی باپ نہیں تھا۔
جس تقریر میں وزیر اعظم عمران خان نے بلاول بھٹو کی نقل اتاری اسی تقریب میں سپیکر قومی اسمبلی جس طرح ٹھٹھا مار کر ہنسے تھے یہ رویہ کسٹوڈین أف دی ہاوس کے شان شایاب نہیں تھا۔ اس سے جہاں ایک طرف ان کی imaturity کا اندازہ ہو سے ان کی توقیر میں مزید کمی ہوٸی۔ سپیکر کا کام ممبران کی توقیر کاخیال کرنا ہوتا ہے لیکن جب وہ خود ہی اپنے ممبران کی بے توقیری کرے گا تو اپنی عزت کی توقع کرنا لا حاصل ہو گا۔
ایوان میں بھی کچھ وزرا ٕ کی طرف سے طوفان بد تمیزی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اور سپیکر کا اپوزیشن کی طرف سے اٹھاے گٸے نقات اور تقاریر کا جان بوجھ کر ایسے وزرا کو مخاطب کر کے فلور دینا بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس سے محظوظ ہوتے ہیں۔ سپیکر کو ایسے رویے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ لیکن وزیر اعظم کی طرف سے بلاول بھٹو کی توقیری پر اسد قیصر کا ٹھٹھے مارنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ بھی دوسروں کی بے توقیری کے ٹولے سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہماری پارلیمانی تاریخ میں فادر اف دی ہاوس کی جگہ وکی ڈونرز کی فہرست کافی لمبی ہے۔میں نے پارلیمنٹ کی کارواٸی محمد خان جونیجو کے دور سے لے کر نواز شریف کی أخری اسمبلی اور موجودہ پارلیمنٹ کے چند اجلاس کو رپورٹ کیا۔اسی طرح پنجاب اسمبلی کی کارواٸ کو بھی اپنی أنکھوں سے دیکھا۔ پنجاب اسمبلی می أپنی أنکھوں سے دیکھا کہ جب مرد مجاہد فضل حسین راہی نے اس وقت کے ڈکٹیٹر ضیا ٕ الحق کو وردی میں پنجاب اسمبلی میں تقریر کرنے پر اعتراض کیا تو اسے سپیکر منظور وٹو کے حکم پر پنجاب اسمبلی سے ڈنگا ڈولی کر کے باہر پھنکوا دیا گیا۔ لیکن اس وقت کی “vicky donor” منظور وٹو نے بھی اپنی اس حرکت پر شرمندگی کے اظہار کی بجاۓ أمر ضیإالحق سے داد طلبی کی نظروں سے دیکھا اور بعد میں اپنے اس اقدام کا تحفظ بھی کیا۔ ایک اور وکی ڈونر امیر حسین بھی تھے جو أمر کا تحفظ کرتے رہے۔ پارلیمنٹ کی جتنی بے توقیری میں نے ان دو ادوار میں دیکھی اس کی دوری مثال ملنا مشکل ہے۔ پارلیمانی تاریخ میں ملک معراج خالد۔ سید فخر امام۔حامد ناصر چھٹہ۔ فہمیدہ مرزا اور ایاز صادق جیسے لوگ بھی تھے۔ ایاز صادق نے تو پارٹی پالیسی کے خلاف پی ٹی أٸ کے استعفی منظور نہ کرنے کی بات منوا لی۔باقی سپیکرز کی اکثریت نوکری ہی کرتی رہی اور اپنا وقار بڑھایبا نہ ادارے کا۔
کہتےہیں سیاست میں مخالفت نہ ہو تو یہ بے مزہ ہوتی ہے لیکن مخالفت کی جگہ دشمنی اور مخالف کی بے توقیری کا عنصر أ جاۓ تو پھر ایسی سوچ کا زوال یقینی ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی یہ تجربات کر چکی ہے اور اس کا خمیازہ بھگت چکی ہیں لیکن پی ٹی أٸ اس سے سبق حاصل کرنے کی بجاۓ تمام حدیں عبور کر چکی ہے اور اس میں مزید لتھڑتی چلی جا رہی ہے اور اس قسم کی سیاست ان کا بیانیہ بنتا جا رہا ہے۔نواز شریف اور ان کی سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے لین لندن میں نواز شریف کے گھر حالیہ بد تمیزی اسی کا تسلسل ہے۔ اور اس حرکت کا پی ٹی أٸ کے وفاقی اور صوباٸی وزرا ٕ مسلسل لے رہے ہیں۔ لیکن مسلم لیگ ن کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے بھی اپنی قیادت کے کہنے پر عمران خان کی سابقہ اہلیہ کے لندن میں گھر کے باہر مظاہرہ کیا تھا۔ایسے رویے ختم ہونے چاہیں ورنہ یہ سیاست کو ذاتی دشمنی کی طرف لے جایں گے جس کے نتایج تباہ کن ہوں گے
17 - 17Shares